پہاڑوں کی چال۔۔اشفاق احمد

ہمارے گھر کے سامنے ایک کافی اُونچا پَہاڑ ہے۔ “اُس پار” جھانکنے کی چاہ میں ہم دوست اکثر اِس کی چوٹی پر چڑھتے رہتے ہیں۔

یہ پیدل سفر بہت کٹھن ہوتا ہے لیکن پہاڑوں سے وابستہ لوگ چوٹی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ سفر کا عرصہ کتنا ہوگا۔

اُسی حساب سے پھر ٹھہر ٹھہر کر دھیمی چال سے آگے بڑھا جاتا ہے۔ تَھکن تب بھی ہوتی ہے لیکن اُس وقت ہوتی ہے جب فاصلہ بہت کم رہ جاتا ہے تب “اُس پار” جھانکنے کی چاہ تھکن پر غالب آجاتی ہے۔

جو لوگ شروع سے دِھیمی چال کی بجاۓ تیز تیز چلنا شروع کرتے ہیں وہ کچھ ہی فاصلہ طے کرکے ہلکان ہو جاتے ہیں۔

ایسی حالت میں اُن کی تھکن کا احساس اُس پار جھانکنے کی چاہ پر غالب ہوکر سفر کا سارا مزہ خراب کر دیتا ہے۔
بسا اوقات تو ہر ہر قدم پر جھانکنے کی اُمنگ کم ہوتی جاتی ہے کہ چوٹی بہت دور محسوس ہوتی ہے۔

یہ سارا سفر “عمر” کا سفر ہے۔ یہ عُجلت کی نذر ہو جاۓ تو سارا سفر تھکن کا شکار ہو جاتا ہے۔

” زندگی” میں ڈَھل جانے والے دھیمی چال چلتے ہیں تاکہ ساتھ چلنے والوں کا ساتھ بھی نہ چُھوٹے اور دورانِ سفر چوٹی کو بار بار تَکنے کا لُطف بھی قائم رہے۔

اِس سفر میں کچھ دیر سَستانے کی جب حاجت ہو تو نرم گھاس پر کسی پتھر سے ٹیک لگا کر آسمان کی طرف تَکتے رہنا وسعتوں سے ایک شاندار تعارف ہے۔

ذرا سی دیر گزرتی ہے اور ایک دوست کی ہلکی سی تھپکی سے سفر پھر شروع کہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پَڑاؤ کبھی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوا کرتے۔ بھلے سَستا لیجیے لیکن پھر اُٹھ جائیے۔

Facebook Comments