قرون وسطی کا شہر”Avila”۔۔۔۔۔عمیر فاروق

گالیسیا سے نیچے جنوب میں وسطی سپین پہ ڈھلتے ہوئے ہلکا ہلکا منظرنامہ بدلتا جاتا ہے۔ گالیسیا کی سرسبز پہاڑیوں کی جگہ کاستیا لیون کی نیم خشک میدانی سطح مرتفع لیتی جاتی ہے۔ جہاں رنگ بھورے، خاکستری یا سنہری ہیں جنکی یبوست گہرے سیاہی مائل سبز رنگ کے درخت توڑتے ہیں۔ اویلا کے ہموار میدان میں حیرت کا جھٹکا لگتا ہے جب وسیع و عریض ہموار میدانی منظر کی یبوست ایک اونچی پہاڑی توڑتی ہے جس کی چوٹی قرون وسطی کے ایک پتھر کے شہر کے تاج سے مرصع ہے۔ یہی آویلا ہے۔
سیلانی رُک نہیں پاتا اس کے قدم بے اختیار عہدگزراں کے اس پراسرار جھومر کی طرف اٹھتے ہیں اور وہ وہاں جاکر تاریخ کے پلٹے ہوئے اوراق کو ان کے اپنے عہد میں جاکر محسوس کرسکتا ہے۔
اویلا ان چند شہروں میں سے ہے جنہوں نے اپنے قرون وسطی کی ہیئت اب تک برقرار رکھی ہے۔ شاید یہ واحد شہر ہوگا جہاں بارہویں صدی عیسوی کی شہر پناہ کی پتھر کی فصیل آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔


اس فصیل کے اوپر چلا جاسکتا ہے اور فصیل کے دیدبانوں سے حد نظر میلوں تک پھیلے نچلے میدان تک وسیع ہوتی ہے نیچے میدان کی زمین مٹیالی سبز لگتی ہے جو حد نگاہ تک پھیلی ہے۔
شہر کی فصیل چوکور ہے جس کو رومن انداز میں دو بڑی سڑکیں آپس میں کاٹتی ہیں۔ فصیل کے اندر کا قدیم شہر باغات، خانقاہوں، گرجوں، سرکاری عمارات اور عام شہریوں کی رہائشوں سے اٹا پڑا ہے جو تمام پتھر کی ہیں۔ شہر کی گلیاں پتھر کی ہیں جو آج کے معیار سے تنگ ہوں گی لیکن آٹھ سو سال قبل کے معیار سے کشادہ ہیں۔ شہریوں کی رہائشیں تین یا چار منزلہ عمارتوں میں ہیں یہ یک منزلہ یا دو منزلہ ایک خاندان کے مکانات ہرگز نہیں بلکہ فلیٹ نما مشترکہ سوشل رہائشیں ہیں جنکا رواج مغربی بحیرہ روم میں رومن سلطنت کے عہد سے چلا آرہا تھا۔


شہر میں جابجا گلیاروں کے اندر چھوٹے چھوٹے باغ ہیں اور چوکوں پہ پتھر کے فوارے ہیں جن کے اردگرد اس دور میں شہری دھوپ سینکا کرتے تھے اور تازہ ہوا لیتے تھے۔
الغرض اویلا کسی بھی اس طالب علم کے لئے علم کا خزانہ ہے جو قرون وسطی کے شہروں کی طرز تعمیر ، معاشرت اور سیاست کو جاننا چاہتا ہے۔
اویلا کس لئے دوبرونک یا قرطبہ یا ہینوور سے زیادہ اہم اور دلچسپ ہے؟ اس کا اشارہ ہمیں اویلا کے کتھیڈرل سے ملتا ہے۔ عموماً کیتھیڈرل شہر کے وسط میں یا شہر پناہ کے اندر بنائے جاتے تھے لیکن اویلا کا کیتھڈرل عین شہر پناہ کی فصیل کے اندر تعمیر کیا گیا۔ پتھر کی فصیل کو اس جگہ بے حد چوڑا کرکے قلعہ نما کیتھیڈرل تعمیر کیا گیا۔ جو کہیں اور نہ دیکھا اور یہی حیرت انگیز تعمیر قرون وسطی کی معاشرت اور سیاست کے بہت سے بھید کھولتی ہے۔
قرون وسطی کا یورپ حیرت انگیز طور موجودہ دنیا سے ملتا تھا اور شاید یورپی اسی لئے اپنے معاشرہ کے قائم کردہ اصولوں کے عالمی ہونے کے وہم کا شکار ہیں۔ بہرحال اس جملہ معترضہ کو نظرانداز کریں اور آگے بڑھیں۔


سوال یہ تھا کہ آخر اویلا کا کتھیڈرل اتنی عجیب جگہ اور عجیب انداز سے کیوں بنایا گیا؟
اس سوال کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس عہد کے یورپ کو سمجھنا ہوگا۔
گیارہویں بارہویں صدی کا یورپ ایک خالصتاً جاگیردارنہ معاشرہ تھا جہاں جاگیردار کا بڑا بیٹا کل جائیداد کا مستحق تھا اور یہ اعلی طبقہ تھا، جاگیردار کے باقی بچے جائیداد کے حقدار تو نہ تھے لیکن اپنی تعلیم اور ہنر کی وجہ سے درمیانہ طبقہ تھا اور کھیت مزدور نچلا طبقہ تھا جو زرعی غلام تھے۔
تصور کیا جاتا تھا کہ ہر فرد کا آقا ہے، جاگیردار اور بادشاہ حتمی آقا تھے جس تصور کو ہم ظل سبحانی کہہ کے بلاتے تھے۔


البتہ شہر پناہ کی فصیل کے اندر شہری آزاد تھے ان پہ صرف ریاست کا حکم چلتا تھا انکا کوئی آقا نہ تھا سوائے شہری حکومت کے ، جس کے حکم کے وہ پابند تھے۔یہاں جاگیرداروں کی چھوٹی اولاد بھی رہنے کے لئے آتی تھی جن کے پاس تعلیم یا ہنر ہوتا تھا اور شہر میں موجود پہلے سے لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔ ان سب کے پاس شہر کے حقوق شہریت ہوا کرتے تھے۔ حقوق شہریت کا پیمانہ شہر کے گرجا میں موجود پیدائش، اموات، شادی بیاہ اور رہائش کا سرٹیفیکٹ ہوتا تھا جو سیکولر عہد سے قبل مذہبی سرٹیفیکٹ تھا اور سیکولر دور سے سول رجسٹر قرار پایا اور اس رجسٹر کو گرجا کی بجائے بلدیہ نے سنبھال لیا۔
بہرحال اس عہد میں دیہاتی جن کی حیثیت مزارعہ کی ہوتی تھی انکا یہ خواب ہوتا تھا کہ کبھی وہ شہر جاکر آزاد مزدور کی حیثیت سے کام کرسکیں یا اپنی دوکان بنا سکیں۔ لیکن اس معاشرہ میں دیہات کا مزارعہ جاگیردار کی مرضی کے بغیر اپنی جگہ سے ہل نہ سکتا تھا اگر ایسا کرتا تو باغی مجرم قرار پاتا اور سزا ملتی۔


لیکن خوشحال زندگی کی خواہش ان لوگوں کو جوا کھیلنے پہ مجبور بھی کرتی اور وہ دور دراز شہروں کے باہر مقیم ہوجاتے کیونکہ شہر میں رہائش شہری انتظامیہ کے کنٹرول کے باعث انکے لئے ناممکن ہوتی تھی۔ یاد رہے کہ آوارہ گردی اسی دور سے جرم قرار پائی کہ جو شخص اپنا درست پتہ، نام ، ولدیت اور جگہ پہ موجودگی کی وجہ نہ بتا سکتا وہ آوارہ  گردی کے جرم میں سزا یاب ہوتا یا شہر بدر تو ہو ہی جاتا۔
اس لئے یہ لوگ شہر پناہ کی فصیل کے باہر ہی پناہ لیتے تھے لیکن شہرہ پناہ سے باہر رہنے والے صرف یہ لوگ ہی نہ ہوا کرتے تھے بلکہ ان شہر سے باہر لوگوں میں رہنے والوں میں یہودی، مسلم یا دیگر شہروں کے عیسائی تاجر بھی ہوتے تھے جن کے پاس پیسہ ہوتا تھا لیکن شہر کے اندر جگہ کی کمی کے باعث باہر مکان بنا لیتے تھے۔ ان کچی بستیوں میں غریب اور گداگر بھی رہا کرتے تھے کیونکہ شہر کا قانون سخت ہوتا تھا اور ان سب غیر مقیموں کو آوارہ گرد قرار دے سکتا تھا۔


اویلا کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ سولہویں صدی میں شہر کے عروج میں شہر کی آدھی آبادی شہر پناہ سے باہر مقیم تھی کیونکہ فصیل کے باہر کی عمارتوں کی قدامت یہ بتاتی ہے۔
اب ہم اصل سوال کی طرف مڑتے ہیں کہ آخر اویلا میں ایسا کتھیڈرل کیوں بنا جو شہر پناہ کو گویا چیر کر بنایا گیا؟
اویلا بارہویں صدی میں عیسائی سپین کی شمالی ریاست کاستیا لیون کا آخری سرحدی شہر تھا جہاں ہر وقت جنوب کی مسلم ریاستوں میں سے کسی کے حملے کا ڈر ہوتا تھا۔ شہر کے باہر کی آبادی میں یہودیوں کے علاوہ مورش مسلمان تاجر اور ہسپانوی النسل مسلمان موریسکو بھی آباد تھے۔ خوف یہ تھا کہ کہیں  ایسا نہ ہو کہ کسی اتوار کو موریسکو خود کو عیسائی بتا کر عبادت کے بہانے شہر میں داخل ہوں اور عین اسی وقت مورش فوج شہر پہ حملہ آور ہو اور موریسکو سازش کرکے شہر کے دروازے کھول دیں اور اس طرح شہر کا سقوط ہوجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors


اسی لئے اویلا کا کیتھیڈرل شہر پناہ کی فصیل کے اندر ڈیزائن کیا گیا اس  کا اندرونی دروازہ جو شہر کی طرف کھلتا ہے ایک عام گرجا کا دروازہ ہے لیکن شہر پناہ کے باہر کی طرف کھلنے والا دروازہ کسی قلعہ کی طرح مہیب اور آہنی ہے۔ آئیڈیا یہی تھا کہ اگر موریسکو کیتھڈرل میں داخل ہوئے بھی تو اسلحہ نہ لا سکیں گے اور قلعہ نما کیتھیڈرل کے اندر مقید ہونگے اس عالم میں کوئی باہر کی فوج حملہ  آور ہوئی بھی تو بیرونی دروازہ ناقابل شکست ہوگا۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply