پروٹوکول سسٹم اور بیمار ذہنیت۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

ایک بے وفا ہینڈسم کے کیے بہت سے وعدے جو وفا نہیں ہوئے ان میں ایک وعدہ تھا پروٹوکول سسٹم کا خاتمہ۔
ہمارے لوگ کرپشن، دہشت گردی یا بے روزگاری کو ملکی مسائل کی جڑ بتاتے ہیں، لیکن مسائل کی اصل جڑ بس یہ ہے: قاعدے قانون سب کمزوروں کے لیے جبکہ طاقت ور کا وہی قانون جو اس کی اپنی مرضی! پراٹوکول سسٹم اس مسئلے کی سب سے واضح علامت کے طور پہ ہر جگہ ہمارے گرد ننگا ناچ کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم لوگ (ڈاکٹر) جب سرکاری دفتروں کے باہر دھکے کھاتے ہیں، افسران بلکہ کلرکوں کے کمروں کے سامنے دست بستہ فریادی بن کر کھڑے رہتے ہیں، تو نظام کو گالیاں دے کر سہولت سے فرض کفایہ ادا کر دیتے ہیں،لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے اپنے ادارے (ہسپتال، میڈیکل کالج) کیا تصویر پیش کر رہے ہیں۔

فرعون جمبو پیک میں ہو یا ٹِکی پیک میں، ہوتا تو فرعون ہی ہے! بیمار ذہنیت کو جتنی اسپیس ملتی ہے وہ اتنا ہی پھلتی ہے؛ سرکاری دفتر میں جگہ زیادہ ملتی ہے یہ تو ٹھیک ہے، لیکن ہمارے آنگن میں بھی یہ بیماری اگر پھلنے لگے تو کس منہ سے افسر شاہی کا گلہ کریں گے؟

چند روز پہلے جناح ہسپتال (جو میرا دوسرا گھر ہے) میں ایک چوکی دار کو صرف اس لیے زد و کوب کیا گیا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر سے شناخت پوچھ بیٹھا تھا۔ بات چھوٹی سی تھی، بڑے آرام سے وہیں ختم کی جا سکتی تھی۔ ۔لیکن ہوا کیا؟
چھوٹے چھوٹے لوکل فرعون جو ہمارے اداروں پر بھی بطور عذاب مسلط ہیں انہی  میں سے جناح پر مسلط شدہ عینک والے فرعون کو معاملے میں گھسا لیا گیا۔ نتیجتاً ناحق ایک کمزور کو مارنے پیٹنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ پٹنے والے نے جب انصاف مانگا تو گندی سیاست، ڈاکٹر بمقابلہ چھوٹا عملہ، وائٹ کوٹ کی عزت وغیرہ کی ڈُگڈُگی بجائی گئی۔

علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال میں وقت گزار چکنے کے بعد مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اتنی آسانی سے ٹرک کی بتی کے پیچھے اس ادارے کے لوگ نہیں لگتے۔ سو جب ان پھوکے نعروں پر بھی بات نہ بنی اور اپنی غلطی دبانے کا وسیلہ نہ ملا تو انصاف مانگنے والے ملازمین پر قحبہ خانے چلانے اور منشیات کا کاروبار کرنے کا الزام لگایا جانے لگا! یہ سوچے بغیر کہ اگر کوئی عملے کا آدمی یہ سب کاروبار کر رہا ہے تو اس کے خریدار تو ادارے کے لوگ (اکثریت ڈاکٹرز) ہی ہوں گے! یعنی اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے پورے ادارے کو نشئی اور بدکار کہہ دیا!

کئی سال قبل میں ٹریننگ کے لیے جب الائیڈ ہوسپٹل سے جناح ہوسپٹل آیا تھا تو آنے کے چند ہی دن بعد ایک شریف النفس پروفیسر کے کمرے میں اسی ٹِکی پیک فرعون کو گھستے دیکھا تھا۔ پروفیسر کو ڈرا دھمکا کے ایک ناجائز کام نکلواتے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھنے کے بعد میں اس وقت وائی ڈی اے سے بالکل بدظن ہو گیا تھا۔ کہ جس جماعت کے ایسے “لیڈر” ہو سکتے ہیں وہ کیا کسی کے حق کے لیے کھڑی ہو گی! آج ینگ ڈاکٹروں کی تنظیم بالعموم اگر منفی تاثر رکھتی ہے تو اس کے پیچھے یہی گندے انڈے ہیں، جنہوں نے عوام کا اور تنظیم کا کو ر لے کے ہمیشہ ذاتی مفادات اور انفرادی کاموں کا بندوبست کیا ہے۔ یہ بونے اپنے اپنے اداروں میں وڈیرے، چوہدری اور بابُو بن کے ہمارے سر پہ  عیش کرتے رہے ہیں، ان کا تنظیم سے جڑے رہنے کا واحد مقصد یہی رہا کہ قانون سے بالاتر رہ سکیں۔ یعنی وہی پروٹوکول سسٹم جسے ہم سیکرٹیریٹ میں گالیاں دیتے ہیں ان “چِکّڑ چوہدریوں” نے ہماری قوت پر ہمارے ہی اداروں میں قائم کر رکھا ہے اپنی ذات کے لیے!

غنڈہ گردی، کرپشن، اور جھوٹ پر قائم لیڈری جب تک چند حلقوں کی آشیرباد سے چلتی رہے گی، تب تک نہ تنظیم کی کوئی عزت ہو گی نہ کمیونٹی کی۔ موجودہ ینگ ڈاکٹر قیادت کے لیے جناح ہسپتال واقعہ ایک ٹیسٹ کیس ہے! جناح کی لیڈرشپ اور ڈاکٹرز کا فیصلہ تو اس نو سرباز کے خلاف آ چکا ہے، اب پورے پنجاب کی ڈاکٹر کمیونٹی کو بھی اپنی اپنی صفوں سے ایسے ڈالروں چوہدریوں کو گردن سے دبوچ کر باہر پھینکنے کی مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ تنظیم کسی ان پڑھ جاہل ہجوم کی طرح نہیں ہے جو صحیح  غلط کا فیصلہ میرٹ پر کرنے کی بجائے اپنے گروہی تعصبات اور کمزور و طاقت ور کی بنیاد پر کرے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دے رکھا ہے،
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، کھڑے ہوجاؤ پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر خواہ یہ (انصاف کی بات) تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین کے یا تمہارے قرابت داروں کے، چاہے فریق غنی ہے یا فقیر، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔” (سورۃ النساء، آیت 135)

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آج ہم نے بحیثیت فرد اور تنظیم اپنی ڈاکٹری کا تعصب انصاف کی خاطر سائیڈ پہ  رکھ کے کمزور چوکی دار کا ساتھ نہ دیا تو کل کو جب ہمارے پروفیسر اور ایم ایس حکومتی دباؤ میں آ کر ہمارے ینگ ڈاکٹروں کو جائز مطالبات کرنے پر بھی وِکٹمائز کریں گے، جب لوکل سیاست دان جعلی ایم ایل سی لینے کے لیے پرائمری یونٹس پر ہمیں پریشرائز کریں گے، کسی بھی طرح ہمارا استحصال ہو گا تو ہم کسی سے یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ہم مظلوم ہیں ہمارا ساتھ دیں۔ ابھی فیصلہ کر لیں کہ جنگل کا قانون جو طاقتور کے گھر کی لونڈی ہے آپ کو وہ چاہیے یا آپ کو انصاف کا نظام اور جائز حقوق چاہئیں! اگر اپنی آستینوں میں موجود ان سانپوں کا ڈنگ نہ نکالا گیا تو کل گارڈ کی جگہ مار کھانے والے آپ بھی ہو سکتے ہیں، اور کوئی آپ کو بچانے والا یا آواز بلند کرنے والا نہ ہو گا۔
‏“Charity begins at home”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply