مفتی طارق مسعود صاحب کے نام ایک کھلا خط/محمد وقاص رشید

مفتی صاحب ! آپ کی اچھرہ واقعے پر ایک ویڈیو دیکھی۔ خوشی ہوئی کہ آپ نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ۔۔

اس وقت دو طرح کے طبقات اپنی اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک تو وہ جو مذہبی جنونی ہیں۔ یہ پاگل لوگ ہیں ۔ یہ شاید انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار مریض ہیں۔ کوئی بچپن میں ان کو دماغی چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے ایسا ہو گیا ان کے ساتھ۔ ہر جگہ یہ توہین تلاش کرتے رہتے ہیں  اور مارنے دھاڑنے پر آ جاتے ہیں۔ یہ انکا قصور نہیں ہے حقیقت میں یہ انکا قصور نہیں ہے۔ اصل میں کچھ مذہبی سکالرز ہیں جو جنونی ہیں پاگل ہیں کیونکہ جب بندہ ڈپریشن اور انگزائٹی کی وجہ سے پاگل ہو جاتا ہے تو اسی قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ سکالرز ہیں جنہوں نے ایسی جذباتی تقریریں کر کر کے لوگوں کا دماغ ایسا بنایا ہے۔ یہ اس extreme لیول پر پہنچے ہوئے ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں پوری دنیا میں۔ سوچیں اگر وہاں اچھرہ بازار میں اس عورت کا قتل ہو جاتا تو  As a Pakistani ہم دنیا کو کیا منہ دکھانے کے قابل ہوتے ؟ پہلے ہی ہماری حرکتیں دیکھیں لیں۔

جو نبی ﷺ  ایک چیونٹی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتے تھے انکے نام پر انکے نعرے لگاتے ہوئے انسانوں کو یوں مار دینا اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح لوگ اسلام سے متنفر ہونگے۔ قرآن کی توہین سے بچانے کے لیے فقہا مقدس اوراق جلانے کا فتویٰ دیتے ہیں ،یہاں اس بات پر قتل کر کے لوگ فخر کرتے ہیں۔جن بددماغوں نے یہ پراڈکٹ تیار کی ہے اللہ انہیں ہدایت دے۔ پاکستان میں قانون موجود ہے اس طرح عام لوگوں کو یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فیصلہ کریں کہ توہین ہوئی یا نہیں ہوئی یہ اس قانون کا غلط استعمال ہے۔

اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اسلام اور علما  کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ او بھئی !اس واقعے پر سب سے زیادہ ہم علما  ہی مذمت کر رہے ہیں۔ ہم عوام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کچھ بددماغ اور کم علم لوگوں کا پھیلایا ہوا شر ہے۔ علما  سے زیادہ حکومت کو چاہیے اقدامات کرے۔ شکر ہے کہ خاتون پولیس آفیسر نے اس خاتون کی جان بچا لی جنہیں میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

    عالی مقام ! اب میں آپکو ایک مفتی صاحب کی ایک اور تقریر پڑھواتاہوں۔

      بھئی آج کل ایک واقعہ ہے وقت کم ہے اس لیے میں مختصر عرض کرتا ہوں اصل میں جب اس مسئلے پر میں گفتگو کرتا ہوں تو بہت ساری باتیں نکل آتی ہیں۔

بھئی دیکھو آسیہ نامی ایک عورت پر توہینِ رسالت کا الزام لگا جس نے خود تسلیم کیا عدالت میں (جو کہ غلط بات ہے اس نے عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا تھا بلکہ الزام کنندگان کے اوپر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے توہینِ رسالت ص کی آڑ لینے کا الزام عائد کیا تھا) ۔ تو سلمان تاثیر نے زیادہ پنڈر بن کر اس سے ملاقاتیں شروع کر دیں اور کہا میں تمہیں آزاد کرواؤں گا۔ اس نے یہ بات صولت مرزا یا اور کسی پھانسی کے مجرم سے کیوں نہیں کی۔ ؟صرف اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر ثابت کرنے کے لیے۔ ساتھ ہی کہنے لگا توہینِ رسالت ص کے سیاہ قانون کو میں پیلا کروں گا۔ بھئی یہ توہین نہیں تو کیا ہے۔ ممتاز قادری جس نے اور بھی بہت کچھ سنا ہو گا کیونکہ وہ اسکا ذاتی گارڈ تھا۔ اس نے عدالت میں کیس کرنے کی کوشش کی تو عدالت نے ممتاز قادری سے کہا کہ جب تک سلمان تاثیر گورنر ہے اسکے خلاف کیس نہیں ہو سکتا۔ (جو کہ سریعاً جھوٹ تھا کیونکہ ایسے کسی عدالتی فیصلے کا کوئی وجود نہیں تھا ) تو بھئی اب خود بتاؤ ممتاز قادری اور کیا کرتا، کیا سلمان تاثیر کو کھلا چھوڑ دیتا، کہ گستاخی کرتا پھرے۔ اس نے بالکل ٹھیک کیا۔ سلمان تاثیر تو مردار ہوا ، وہ تو حرام موت مرا۔ (یاد رہے کہ ان کے مسلکی پیشوا مفتی تقی عثمانی صاحب سلمان تاثیر کی گستاخی ثابت نہ ہونے کا بیان دے چکے تھے یہ اور بات کہ قاتل کے بارے اگر مگر لیکن کے ساتھ نیت کا ثواب نتھی کر دیتے تا کہ مجموعی فضا میں وہ اسی جانب دکھائی دیں)۔ تو بھائیو! جب حکومت سزا نہیں دے گی تو پھر ہم کیا کریں گے بولو بھئی ؟۔ غامدی صاحب بھی خود کو سلمان تاثیر سے زیادہ لبرل اور سیکولر ثابت کرتے پھرتے ہیں۔  (سلمان تاثیر کو شاتمِ رسول ص کہہ کر ان دنوں جمہور کی رائے سے الٹ حنفی فقہاء کی فکر کو مسلمانوں کے سامنے رکھنا غامدی صاحب کا سلمان تاثیر سے بڑا جرم تھا۔ وہ سلمان تاثیر جن کو شیخ الاسلام بہرحال شاتمِ رسول ص نہیں کہہ رہے تھے۔ یہاں یہ بھی اندازہ کیجیے گا کہ جو باتیں سلمان تاثیر کے بارے گمان کی جا رہی تھیں ان پر وہ واجب القتل تھے جبکہ جو وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر واضح طور پر کہہ رہے تھے کہ میں توہینِ رسالت ص کا سوچ بھی نہیں سکتا وہ ان حنفی علما  کو قابلِ قبول نہ تھا۔۔ کن کو ؟حنفی علما  کو ۔۔جن سے اختلاف پر یہ دوسروں کو نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں )۔ آج غامدی صاحب میں سے بھی دھواں نکل رہا ہو گا انشاللہ۔ یہ بھی بڑی تقریریں کرتے ہیں کہ جی اللہ غفوروالرحیم اور نبی پاک ص کی سنت نہیں وغیرہ۔ کسی کا باپ بھی پاکستان سے یہ قانون ختم نہیں کر سکتا۔ تو بھئی ایک بات کا عزم کرو وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے کہ اگر تم کسی کو توہینِ رسالت کرتا دیکھو تو بھئی ادھار نہیں رکھنا۔ وہ لکھا ہوتا ہے ناں کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔ یوں تو اسلام میں قسطوں کا کاروبار جائز ہے مگر یہاں نہیں، یہاں ایک ہی بار میں حساب چکتا کرنا ہے ادھار ۔۔۔بولو بھئی ۔۔نہیں رکھنا۔

   میرے محترم مفتی صاحب ! جانتے ہیں یہ دوسری تقریر یہاں کس کی نقل کی گئی ۔۔ بولو بھئی ؟؟؟ جی ہاں آپ کی حضرت، آپ کی۔

    حضور پاکستان کی تاریخ کے  اس ادنیٰ  سے طالبعلم نے یہی خاک چھانی۔ انہی رستوں کی گرد چاندی بن کر سر میں چمکی۔ قومی زائچے میں بدقسمتی کی لکیریں ہی جھریاں بن کر چہرے پر نقش ہوئیں۔

جنابِ والا ! آپ صرف اچھرہ والی خاتون کی جگہ آسیہ بی بی کو رکھ لیجیے ، ممتاز قادری مرحوم کی جگہ چھریاں پکڑے اچھرہ کے “سر تن سے جدا” والے غازیوں کو۔ اے ایس پی صاحبہ جن کی آپ نے تعریف کی،  کی جگہ سپریم کورٹ اور غامدی صاحب کی جگہ خود کو تو، آپ جان جائیں گے کہ جب آپ اور آپکے دیگر علما  کرام اس وقت کی تیار مذہبی دیگ سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر آگے آ رہے تھے تو  غامدی صاحب نے روزہ کیوں نہ توڑا؟

میں اس ضمن میں آپ کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کے سامنے بھی چند سوالات رکھتا ہوں جس سے سمجھنے میں آسانی ہو۔

سوال نمبر 1۔ کیا بعینہ یہی اس وقت غامدی صاحب اور انکے ہم جیسے طالبعلموں کا خیال نہیں تھا جو اب آپ کا ہے۔ کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات نہیں۔ الٹا اسلام اس کی ممانعت کرتا ہے ؟

سوال نمبر 2۔ سلمان تاثیر مرحوم کے لیے آپ بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کا روائتی جملہ بول کر مخصوص مذہبی پروپیگنڈا کر رہے تھے جسے مروجہ مذہبی ذہنیت بہت قبول کرتی ہے تو اب آپ بھی تو بیرونی دنیا میں اسلام اور پاکستان کے تشخص کی بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ پر آج بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا تو سلمان تاثیر مرحوم اور غامدی صاحب پر کیوں اور کیا آپ کو یہ الزام آج واپس نہیں لینا چاہیے ؟

سوال نمبر 3۔ کیا غامدی صاحب اور آپ میں یہی فرق نہیں کہ انہوں نے عین یہی کہا تھا کہ یہ اس قتل کی اعانت سے گلیوں اور چوراہوں میں مقتل آباد ہونگے۔ وہ ان سے سماج کو بچانا چاہ رہے تھے جبکہ آپ انکے خدشے کے مطابق “سپریم کورٹ سے اچھرہ تک ” یہ مقتل آباد ہونے کے بعد وہی کچھ ارشاد فرما رہے ہیں ؟

سوال نمبر 4۔ یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ “چند جذباتی اور جنونی مذہبی سکالرز نے ان لوگوں کا دماغ اس طرح خراب کیا ہے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے کیا آپ ” ادھار نہ رکھنے ” کی مذکورہ بالا اپنی ترویج کو اس فہرست میں شامل سمجھتے ہیں ؟

سوال نمبر 5۔ اگر در حقیقت مذہبی تعلیمات اور اسلامی تشخص یہ ہے جو آپ آج بیان کر رہے ہیں تو اس وقت بیان کردہ مذہبی تفہیم کیا ہوئی جس نے بقول آپکے آج موقف کے اسلام کو دنیا میں بدنام کیا ؟

سوال نمبر 6۔ آپ نے جو اپنی دس سال پرانی تقریر میں اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق سے متعلق غلط بیانی کی وہ کس ضمرے میں آتی ہے ممتاز قادری مرحوم نے کب اور کس عدالت میں سلمان تاثیر کے خلاف کیس کیا تھا اور وہ عدالتی فیصلہ کہاں ہے؟ آسیہ بی بی نے کس عدالت میں اعترافِ جرم کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے جن چار نکات پر اسے بری کیا تھا ان میں سے ایک تھا عدالتی طور پر اعترافِ جرم کی عدم موجودگی۔

سوال نمبر 7۔ افسوس تو یہ ہے کہ آپ نے آج بھی اپنے اس بیان میں اپنی تیار کردہ اس ذہنیت کو ایک بار پھر لقمہ یہ کہہ کر دیا کہ اچھرہ واقعے پر دوسرا طبقہ اسلام کو بدنام کر رہا ہے۔ حضورِ والا کاش کہ کم ازکم آ پ غیر اعلانیہ ازالے کے آغاز پر تو یہ نہ کرتے۔ یعنی آپ کی اور کسی اور کی اس واقعہ میں مذمت میں کیا فرق ہے۔ آپ کے ان علما  اور انکے پیرو کاروں کو جذباتی ، جنونی ، ذہنی مریض ، پاگل اور بددماغ کہنے اور انکے بیانیے کو اسلام و پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث قرار دینا اسلام اور علما  کو بدنام کرنے کی سازش نہیں لیکن یہی باتیں کسی اور کے کرنا بعینہ ایسا ہے۔ سرکار “وقالو قولا سدیدا”۔۔۔کم ازکم آج تو یہ نہ کرتے۔ ایک طرف آپ اسکو غیر اسلامی طرزِ فکر وعمل قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسے ہی اسلامی طریقت کہہ کر اسکے خلاف استدلال کرنے والوں پر اسلام دشمنی کی سازش کا الزام لگا رہے ہیں ؟

سوال نمبر 8۔ مفتی صاحب انتہائی ادب و احترام سے عرض ہے کہ آپ دونوں ادوار میں ہوا کی رو میں بہے۔ کل جب پورے ملک کی اکثریتی فضا  پہلے والے موقف اور بیانیے پر ڈال دی گئی تھی تو آپ وہاں کھڑے ہوئے اور آج جب آپ ایک کامیاب یوٹیوبر ہیں اور اکثریتی رائے اچھرہ میں مظلوم خاتون کے ساتھ ہے تو آپ اس بیانیے کے حامل ہو کر وائرل ہیں۔ مگر ساتھ ہی دودھ میں مینگنیاں بھی ڈال رہے ہیں کہ آپکی مذمت اسلامی اور دوسرے کی مذمت  اسلام کے خلاف سازش۔ کم ازکم آج تو ایسا نہ کیجیے عالی جاہ۔

سوال نمبر 9۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم جیسے ادنیٰ  طالبعلم آسیہ بی بی سے اچھرہ والی مظلومہ تک ایک ہی موقف اپنا کر بھی آپکی نگاہ میں اسلام کے خلاف سازشی ہی ہیں جبکہ تب بھی داعیِ اسلام اور آج بھی محافظِ اسلام جبکہ آپکے موقف کے تضادات طالبعلم بیان کر چکا۔

سوال نمبر 10۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جو آپکی نگاہ میں اسلام کے خلاف سازشی ہیں ناں یہی پچھلے دس سال میں آسیہ بی بی سے لے کر سانحہ خانیوال ، سانحہ پشاور ، سانحہ سیالکوٹ الغرض پورے ملک میں جہاں جہاں مذہبی جنونیت اور منافرت نے ناحق خون بہایا وہاں وہاں اسلام کی خدمت کرتے رہے اور خدا کا شکر کہ آ پ جیسوں کا “ادھار نہ رکھنے” کا موقف یہاں تلک لے آئے کہ یہ ادھار نہ رکھنا جنونیت ہے ، پاگل پن ہے ، بدماغی ہے ، کم علمی ہے اسلام اور پاکستانیت کے خلاف سازش ہے۔

حضورِ والا یقینی طور پر آپکی اچھرہ واقعے پر ویڈیو قابلِ ستائش ہے خدا آپکو آئندہ بھی توفیق دے مگر ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر گزارش ہے کہ جنابِ صادق و امین ص نے فرمایا “آدھا سچ پورا جھوٹ ہے”۔ آئیے پورا سچ بولتے ہیں۔ جناب آدم کی دعا “ربنا ظلمنا انفسناء” سے شروع ہوتی ہے۔ آپ نے “من الخسرین” سے شروع کی ۔ آپکو دعوت ہے کہ اس سر زمین پر اس روایتِ آدم کو زندہ کیجیے۔ آپ نے تو ذو معنی انداز میں دھواں نکلنے کی بات کی تھی مگر واقعی غامدی صاحب اور میرے جیسے انکے ادنی شاگردوں کے پاکستان کے مستقبل سے دھواں اٹھتا پہلے سے محسوس ہو رہا تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ کو یہ دھواں اس آگ میں ہمارا قومی وجود جلنے کے بعد محسوس ہو رہا ہے۔ کاش اے کاش کہ آپ یہ آگ جلانے والوں میں سے نہ ہوتے مگر آپ آگ بجھانے آئے ہیں تو بھی جی آیاں نوں۔۔۔۔رہے نام خدا کا

ایک ادنی طالبعلم

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply