سطحیت /ڈاکٹر مختیار ملغانی

بڑھاپا اپنی اصل میں فلسفیانہ اور سماجی مسئلہ ہے، اس کی نفسیاتی اور معاشی مشکلات ثانوی حیثیت میں ہیں۔
روایتی معاشرے میں بوڑھا آدمی حکمت اور تجربے کا منبع مانا جاتا تھا، جو عموما حماقتوں سے بھرے بچپن، کھیل کود میں گزارے لڑکپن، جوانی کے حسن و طاقت اور ادھیڑ عمری کی ذہنی بلوغت کے بعد بالآخر تمام موسوں کی سوجھ بوجھ رکھنے والا سماج کا قیمتی فرد مانا جاتا تھا۔لفظ، بزرگ، اس عمر کی خوب عکاسی کرتا ہے، اس لفظ کی چاشنی اپنے اندر شفقت، وقار اور احترام کا ذائقہ لئے ہوئے ہے، بزرگ کاملیت کی علامت تھا، فرد تمام عمر شعور کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے بڑھاپے میں انسانیت کی مقصود معراج پہ جا پہنچتا تھا۔
آج سماج کی تصویر انتہائی تیزی سے بدلی ہے، کبھی معاشرے میں پیروی کیلئے بزرگوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا تھا، پھر نوجوانوں نے یہ جگہ لے لی، آج طفل مکتب اور الٹی سیدھی چھلانگے لگاتے یہ شیر خوار سماج کی سمت طے کرتے ہیں، لڑکپن بڑھاپے کی معاشرتی علامت پہ قابض ہو چکا، فہم و فراغت کی جگہ لا ابالی پن اور نفاست و شائستگی کی بجائے شوروغل دیکھنے میں آتا ہے، اب چونکہ یہی نابالغ اور سطحی سوچ کی عکاسی کرتا رویہ سماج کیلئے مثالی نمونہ قرار پایا ہے تو اس کے ساتھ ہی فرد کا مقصد ، شعور کی منازل ،ترک ہو چکا، اس کی بجائے بے شعور رہنا پسند کیا جاتا ہے کہ قبیلے کی آنکھ کا تارا بنے رہنے کیلئے نسخۂ کیمیا یہی ہے۔ اس نئی جہت نے سماجی اقدار کو بڑی شدت سے بدلا ہے، انسان بزرگی اور حکمت کے سفر سے منکر ہوتے ہوئے حماقت اور شغل میلے کو ترجیح دینے پر مصر ہے، جدید فرد کی کوشش یہی ہے کہ سنجیدہ دکھنے کی بجائے اوٹ پٹانگ حرکتوں پر اکتفا کیا جائے کہ کامیابی کا راز آج یہی ہے، اور یہ فلسفہ منبر و اقتدار تک بھی پھیل چکا ہے۔ کان میں بالیاں ڈالے اور جسم پر ٹیٹو بنوائے یہ چٹ داڑھ، پارٹیوں میں ڈسکو ڈانس کرتی یہ بے ہنگم جسم والی ماسیاں اور قبر میں پیر لٹکائے ون ویلنگ کرتے ہوئے یہ بائیکرز درحقیقت بزرگی جیسے فیشن سے دستبرداری کا اعلان کرتے سماج کی نشانی ہیں۔
فرد آج اگر بڑھاپے سے خوفزدہ ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسی صورت میں سماج میں وہ اپنے سٹیٹس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، اسی لئے فرد ،چلتا پھرتا، اس دنیا سے جانے کی دعا کرتا دکھائی دیتا ہے۔
بوڑھے آدمی کیلئے معاشی مسائل بھی اسی بنا پر ہیں کہ سماج کے انفراسٹرکچر میں اس کیلئے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے، تدفین کیلئے ایدھی یا چھیپا کی ایمبولینس ایک وقت میں بزرگ کے اقارب کیلئے شرم کا باعث تھی، آج یہ عام بات ہے ۔ پوسٹ ماڈرنزم کا یہ مسئلہ گھمبیر ہے جس پر کم توجہ دی جا رہی ہے،
سابقہ امریکی سیکورٹی ایڈوائزر بریزےزینسکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایم ٹی وی ہمارے ہتھیاروں میں شاید سب سے مؤثر ہتھیار ہے، ایم ٹی وی کیا ہے؟ ڈرم پیٹتے ٹین ایجرز جو صرف اور صرف سماعتوں کی توہین کا باعث ہیں ، یہی رویہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، امریکی جنگوں کے شاید کوئی سیاسی یا معاشی مقاصد ہوتے ہونگے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک، جو ہزاروں سالوں کی وراثت کے آمین تھے، کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد یہ امریکی بھیانک قہقہہ لگاتے اور، خوب شغل لگا، کا ورد کرتے واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں، ایسے ہی جیسے کسی ہالی وڈ کی فلم میں گنجے سروں والے چند اوباش لونڈے راہ چلتے کسی بزرگ کو نالے میں دھکا دے کر ہنستے اور اپنی شام انجوائے کرنے نائٹ کلب کو بھاگتے ہیں۔
آج دنیا بالخصوص مغرب میں بڑی تعداد ایسے انسانوں کی ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ حلفاً ارادہ کر چکے ہیں کہ بزرگی اور بڑھاپے کو اپنے قریب نہیں آنے دینا، لہذا سولہ سترہ سال کی عمر تک ہر گناہ و ثواب سے آشنائی کے بعد بائیس تئیس سال میں زندگی سےاکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے، منشیات کے استعمال یا ایڈز و دیگر ایسی بیماریوں کی بدولت نوجوانی میں ہی اگلے سفر کو روانہ ہو جاتے ہیں، یہ لائف سٹائل اور ایسی سماجی اقدار کو گاہے بطور فیشن میڈیا کے ذریعے ہر فرد دیکھ رہا ہے، اور مروج نابالغ فکر کی بدولت اسے اپنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ جدید فیشن کو فالو کرنا ہی اسے منفرد بناتا ہے، ہمیں ہر حال میں کسی بھی معاشرے یا اقوام کی مثبت خصوصیات کو اپنانا اور پروان چڑھانا چاہیئے، جیسے نظم و ضبط اور ریسرچ میں مغرب نے بلاشبہ تاریخ رقم کی ہے، اندھا دھند پیروی میں ہمارے ساتھ، کوا ہنس کی چال چلتے ہوئے اپنی بھی بھول گیا، والا معاملہ ہو سکتا ہے۔
بزرگی، ذہن کی پختگی، حکمت اور دیگر ایسی انسانی خصوصیات سے دستبرداری خطرناک ہے، صد افسوس کہ آج سیاسی، سماجی، مزہبی حتی کہ فکری لحاظ سے بڑے سے بڑے عہدے کیلئے تعلیم، تجربے، ذہنی پختگی کی بجائے پی آر ٹیم کی مدد لی جاتی ہے، بس فرد کو صرف چرب زبان اور ڈھیٹ ہونا چاہئے، اگر یہ خصوصیات فرد میں موجود ہیں تو پی آر ایجینسیز میڈیائی پروپیگینڈے کی مدد سے آپ کو کسی بھی میدان میں دنیا کا واحد نجات دہندہ ثابت کر سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply