• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی سائنسدان چاند تک کیوں نہیں جاسکتے؟ /ڈاکٹر حفیظ الحسن

پاکستانی سائنسدان چاند تک کیوں نہیں جاسکتے؟ /ڈاکٹر حفیظ الحسن

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ چاند پر جانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اسکے لیے نہ صرف بہتر وسائل بلکہ بین الاقوامی تعاون اور کثیر رقم بھی درکار ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ ذرخیز دماغ جنہیں تحقیق کی مکمل آزادی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

یعنی اُنکا کام سائنس و ٹیکنالوجی میں بہتری ہو نہ کہ سرخ فیتے کی رکاوٹ، اپنے اوپر ایف اے پاس افسروں یا سی ایس ایس جیسے گھٹیا معیار کے امتحانات کو پاس کرنے والے بیوروکریٹس کی ریل پیل نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ کسی سیاسی مداخلت سے بھی نبرد آزما نہ ہوں۔ ان سب کے بعد باری آتی ہے شفافیت اور تسلسل کی۔ کسی بڑے سائنسی پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے تین اہم شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔
1. تسلسل
تسلسل سے یہاں مراد واضح نصب العین کے حصول کے لیے وسائل اور اختیارات کا تسلسل ۔ گویا یہ نہ ہو کہ ایک حکومت آنے سے اور دوسری حکومت کے جانے سے پراجیکٹ یااسکے اغراض و مقاصد پر اثر پڑے۔
2. مینیجمنٹ یا انتظام
کسی بھی بڑے سائنسی پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے اسکے انتطامی امور کا بہتر ہونا ضروری ہے۔ سائنس کے اکثر پراجیکٹ کے رہنما سائنسدان یا تو سنئیر اور وسیع تجربہ رکھنے والے۔ سائنسدان ہوتے ہیں یا یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات ہوتے ہیں کہ انہیں بہتر سائنس کے ساتھ ساتھ انتظامی امور پر بھی گرفت ہوتی یے۔
3. میریٹ
کوئی بھی سائنسی پراجیکٹ اقربا پروری، رشوت، خیانت کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ساینس نام ہے دیانتداری کا۔ کسی بھی سائنس پراجیکٹ کی کامیابی اس میں موجود تمام شرکا کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بالعموم یہ سمجھا جاتا یے کہ کوئی سائنسدان تجربہ گاہ میں جائے گا اور فوراً سے کچھ ایجاد کر کے نکل آئے گا۔ ایسا فلموں میں ہوتا ہے۔ اصل زندگی میں سائنس ایک مسلسل اور پیچیدہ عمل ہے جو انفرادیت پر نہیں ، اجتماعی کاوشوں پر مشتمل ہے۔ کیا آپکے خیال میں دنیا کے بڑے بڑے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہر روز خود تجربہ گاہوں میں جا کر شورے کے تیزاب میں گندھک کا تیزاب ڈال رہے ہوتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بڑا سائنسدان خود تجربات کم کرتا ہے تاہم وہ اس قدر علم رکھتا اور جدید تحقیق پر نظر رکھتا ہے کہ نئے سے نئے سائنسی خیالات کو اصل سوچ کی بدولت جنم دے سکے، تحقیق کے لیے فنڈنگ اکٹھی کرسکے، ماسٹرز، پی ایچ ڈی، پوسٹ ڈاک، سنئیر سائنسدانوں کی ٹیم اکٹھی کرسکے اور اپنے شعبے میں انکی رہنمائی کرتے ہوئے نئی سے نئی سائنس دریافت کر سکے، نیا اور جدید علم اکٹھا کرسکے۔ اور اس سب کے لیے اسکی ٹیم کا میریٹ پر ہونا لازمی ہے۔ اور بہتر ٹیم تب بنتی ہے جب بنیادی سائنسی تعلیم بہتر ہو، رٹا سسٹم نہ ہو، درسگاہوں سے نکلنے والے طلباء کا سائنسی ذہن ہو جو سائنس کے مسائل کو سمجھ بھی سکیں اور حل بھی کر سکیں۔
یہ وہ تین اہم بنیادی شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا کسی بھی بڑے سائنس پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
ان تینوں شرائط کے علاوہ عمومی طور پر بہتر سائنسی ماحول کا فروغ حد درجہ ضروری ہے تاکہ عوام میں سے مستقبل کے بہتر سائنسدان اور سائنسی رہنما پیدا ہو سکیں۔ اور ہر خاص و عام کو سائنس کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ کسی بڑے اور کثیر رقم کے سائنسی پراجیکٹ کی مکمل حمایت کر سکیں۔
اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ پاکستان جہاں نہ میریٹ ہے، نہ شفافیت، نہ تسلسل، نہ بہتر تعلیمی نظام، نہ پالیسیاں، نہ آزادی، نہ سائنس کی اہمیت، نہ ریاست و حکومت کی دلچسپی ، نہ وسائل، نہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، نہ بہتر تعلیمی نظام تو پاکستان میں کونسا بڑا سائنس یا ٹیکنالوجی کا پراجیکٹ
ہو سکتا ہے؟ جس سے نئی نسل کے سائنسدان پیدا ہو سکیں جو بڑے مسائل حل کر سکیں۔
یہاں تو دولو شاہ کے چوہے پیدا ہو رہے ہیں کہ ریاست نے زومبیوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے۔ سائنس کے حمایتیوں کی بجائے زومبیوں کے حمایتی اور خود زومبی ذہنییت رکھنے والے 76 برس سے ملک پر قابض ہیں۔ کہتے ہیں جتنا گڑ ڈالیں اتنا میٹھا ہوتا یے تو ریاست نے جب مملکتِ خداد کی پیدائش سے لیکر اب تک اپنے وسائل ان دولوں شاہ بنانے کی فیکٹریاں لگانے میں جھونکے ہیں تو نت نئے اور فرنشڈ زومبی ہی کامیابی سے نکل رہے ہیں۔ جو کم سے کم اس فیلڈ میں پاکستان کا نام “روشن” کر رہے ہیں۔ دیکھیے ریاست جب وسائل جھونکتی ہے تو ہم دنیا میں نمبر ون زومبی پیدا کرتے ہیں جنکا لوہا دنیا مانتی یے۔
سو اگر ریاست اپنی ترجیحات بدلے، سائنس دوست بنے، زومبی اور انکے حمایتیوں کی سرکاری سرپرستی نہ کرے تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنا نام پیدا کریں، کیونکہ ہمارے ہاں بہتر دماغ بھی ہیں اور با صلاحیت افراد بھی۔ مسئلہ سنجیدگی اور ترجیحات کا ہے۔ عوام میں شعور نہیں اور ریاست عوام کو شعور دینا نہیں چاہتی۔
ایسے میں عوام کو خود سوچنا ہو گا کہ وہ کس طرح ریاست کو اپنے بچوں کے مستقبل کا سودا کرنے سے باز رکھ سکیں اور انہیں بہتر سائنسی ماحول اور معیاری تعلیم دلا سکیں جو درخشاں مستقبل کی ضامن ہو۔
خوش رہیں سائنس سیکھتے رہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply