عموماً ڈھابوں چائے خانوں میں لکھا نظر آتا ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ پہلے پہل یہ بات بیری کے کانٹے کی چبھن محسوس ہوتی تھی۔ اب سمجھ میں آتا کہ وہ کیوں ایسا لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے صبح شام دوپہر رات سیاسی چک چک اور رسا کشیاں اس ڈھابے کے مالک پہ تیر بن کے برستی ہوں گی بہرحال سیاسی میدان ایک بہت مشکل میدان ہے۔
کارکنان تو بس فرسٹریشن کے اظہار کو دیگر قیادت سے اختلاف اور اپنی قیادت سے تعلق اور وفا شعاری سے جوڑ دیتے ہیں وگرنہ اگر ہم چندھائی آنکھوں میں چلو بھر پانی نچوائیں اور دل و دماغ پہ زور ڈالیں تو پتہ لگے گا کہ اصل سیاست دان ایک غیر ترقیاتی سوچ کے حامل ملک میں قربانی دیتے دیتے قبرستان تک پہنچ جاتا ہے۔ بہت آسانی سے ہم کسی کو بھی القاب دے دیتے ہیں حالانکہ ایک ایسا ملک جہاں تعمیری سوچ اس سوئی کے مانند ہو جو گھر کے کسی کھدرے کونے سے مل بھی جائے, دھاگا اٹھانے میں فر بھی خاصا وقت نچوڑ لیتی ہو تو وہاں رائے قائم کرنا کوئی گڈا گڑیا کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کسی قائد کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات نہیں کی جا رہی بلکہ مجموعی طور پہ ہمارے ہاں عوامی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں اشرافیہ کے کھیل کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس اشرافیہ میں بلا شبہ سیاست دانوں کا شمار بھی ہے لیکن اگر سیاست دان اس اشرافیہ کو للکار رہا ہے اور اس کی کوشش اور سٹرگل نظر بھی آرہی ہے یا کئی بار ڈسے جانے کے بعد نظریاتی ہو گیا ہے تو وہ نجات دہندہ نہیں تو کم از کم کال کوٹھری یا گھپ اندھیرے میں ایک امید کی کرن ضرور ہے۔ کسی کی حمایت و مخالفت سے آگے بڑھ کے دیکھیں تو تمام سیاسی سوچ کے حاملین اگر کسی بھی شکل میں مظلومیت کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں تو یہ قوم ان کی مقروض ہے! البتہ وہ سیاست دان جو اس نظام کی خرابی میں اشرافیہ کے ساتھ ہیں وہ بھی خرابی کی جڑوں میں سے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں