بھولے بادشاہ/ارشد ابرارارشؔ

اچانک اُسے یاد آیا کہ وہ تو اپنے ” بھول جانے “ کی عادت کی انگلی تھام کر جوان ہوا تھا ۔ ایامِ شباب میں اسی سبب وہ ” بھولے بادشاہ “ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ۔

کئی  دفعہ دن بھر دماغ کی درازوں میں ضروری باتوں کو محفوظ رکھتا مگر شام کو گھر میں بیوی کی صورت دیکھتے ہی وہ سب کچھ بھول جایا کرتا اور بارہا کھنگالنے پر بھی اُسے اپنے دماغ کی تمام درازیں خالی ہی ملتیں ۔

وہ بارہا اپنی قیمتی چیزیں کہیں رکھ کر بھول جایا کرتا تھا ۔ کلاس میں اپنے پہلو میں بیٹھنے والے طالبعلم کا نام تک بھی ، کبھی کبھار تو کسی ضروری بات کرنے کیلیے وہ اپنے مخاطب کا نام بھول جاتا اور وہ بے حد ضروری بات بیچ میں کہیں گم ہو جایا کرتی ۔

شادی کے بعد ایک بار تو حد ہی ہو گئی ،وہ ایک شام اپنے گھر واپسی کا راستہ تک بھول گیا اور کسی اور دوسرے انجان و اجنبی شہر جا پہنچا ۔
ازدواجی زندگی میں ایسے واقعات ایک سے زیادہ مرتبہ سرزد ہوۓ جن کو شمار کرنے بیٹھتا تو بھی گنتی بھول جاتا ۔اپنی بیوی کی گھوریاں سہتا ، جھڑکیاں اور طعنے سنتا رہتا مگر یاد تب بھی کچھ نہ آتا ۔۔۔ کئی  لمحوں بعد بلکہ کبھی کبھار تو کئی  دنوں بعد اچانک سے دماغ کے کسی کونے میں گھنٹی بجتی اور اُسے اچانک سب کچھ یاد آجاتا ۔

یہ خیال آتے ہی اچانک ہو چکے بوڑھے نے اپنے کُرتے کی دونوں جیبیں ٹٹولنا شروع کر دیں کہ عین ممکن ہے وہ بیچ کے تیس پینتیس سال اپنے کُرتے کی کسی جیب میں رکھ کر بھول گیا ہو مگر دونوں جیبوں کو پلٹنے کے باوجود بھی اس کے ہاتھوں میں صرف چند تہہ شدہ بوسیدہ کاغذوں ، کفن میں لپٹے ایک مُردہ بچے کی آخری تصویر اور ایک سو کا مڑا تڑا نوٹ ہی برآمد ہو سکا ۔

اب وہ آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوۓ اپنے کمرے میں ہر وہ جگہ ٹٹولنے لگا جہاں کوئی  بھی کھوئی  ہوئی  چیز ملنے کا تھوڑا سا امکان بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ تکیہ اٹھایا ، بستر ہٹایا اور اپنے برسوں پرانے ٹوٹی چھت والے صندوق کے اندر تک جھانک لیا مگر اُسے کچھ بھی حاصل نہ ہوا تو وہ بیچ سفر میں لُٹ چکے کسی مسافر کی طرح اپنے ہاتھوں میں تھامی تصویر کو دیکھنے لگا ۔

بس یہی اُس کی عُمر بھر کی کُل کمائی  اور متاع تھی ۔
ایک مُردہ بچے کی کفن میں لپٹی آخری تصویر ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

تصویر میں نقش ایک بچے کا پیلا زرد چہرہ دیکھتے ہوۓ وہ سوچنے لگا کہ کوئی  اتنی جلدی کیسے بوڑھا ہو سکتا ہے بھلا ؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply