زخمی بھیڑئیے کا جوابی حملہ /ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایمانوئیل کانٹ نے جن دو آفاقی نشانیوں کا ذکر کیا ہے، ان میں ایک ہے
starry sky above me,
اور دوسری ہے
Moral law within me.
خدا کی موجودگی پر وہ انہی دو دلائل کو مضبوط ترین مانتے تھے۔
اس دوسری نشانی کو لے کر، ان کے مطابق نیکی اور بدی کا بنیادی تصور ہر انسان میں موجود ہے اور انسان کا کوئی بھی فعل احساسِ فرض سے لبریز ہے تو فعل اخلاقی ہے، اگر اس میں ذاتی دلچسپی یا پسندیدہ نتائج ملحوظِ خاطر ہیں تو فعل غیر اخلاقی تصور ہوگا ۔

یہ اندرونی اخلاقی قانون (Moral law within) کچھ بحث کا متقاضی ہے، سادہ الفاظ میں ہم اسے ضمیر کہہ سکتے ہیں، لیکن یاد رہنا چاہئے کہ ضمیر شاید انسانی شخصیت کا نہایت اندرونی یا گہرا عنصر ہے، اس اخلاقی قانون کی ایک سطحی شکل بھی ہے، اس سطحی یا بیرونی اظہار کو آپ، شرم، کہہ سکتے ہیں، کانٹ کے نظریئے کو بحث میں اکثر ، ضمیر، تک ہی محدود رکھا جاتا ہے، میرے نزدیک یہ غلطی ہے، ضمیر اور شرم ( بیرونی اور اندرونی عناصر) کا مجموعہ ہی مکمل مورال لاء ہے۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ شرم اور ضمیر ایک دوسرے کیلئے قطعی لازم اور ملزوم نہیں، کئی ایسے فعل گنوائے جا سکتے ہیں جن کی اجازت ضمیر تو دیتا ہے لیکن سماجی دباؤ کی وجہ سے فرد شرم محسوس کرتا ہے، دوسری طرف ایسے افعال بھی ہیں جن میں شرم تو آڑے نہیں لیکن ضمیر ان کی اجازت نہیں دیتا ۔

ایک لونڈے نے کہا کہ وہ اخلاقی قانون کی کسی اندرونی یا بیرونی شکل (ضمیر اور شرم ) کو نہیں مانتا، عرض کیا کہ ، کپڑے اتار کر، مادر زاد ننگ کی حالت میں مرکزی بازار کے سامنے کچھ دیر رکوع کی حالت میں گزار سکتے ہو؟

اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، کیونکہ شرم کی طاقت سے وہ واقف نہ تھا، اور اس سے کئی گنا زیادہ ضمیر کی طاقت ہے، معاملہ یہ ہے کہ فرد کئی چیزوں کو ماننے سے اس لئے منکر رہتا ہے کیونکہ وہ خود ان کیفیات سے گزرا نہیں ہوتا۔

انسان اگر اپنے ضمیر اور شرم پر مسلسل حملے کرتا رہے، انہیں زخمی کرتا رہے تو کچھ بعید نہیں کہ ایک سٹیج پر آ کر یہ زخمی ضمیر یا شرم (یا دونوں) ،کسی زخمی بھیڑئیے کی طرح واپس آپ پہ حملہ آور ہوں، یہ حملہ گاہے اس قدر شدید ہوسکتا ہے کہ فرد کیلئے مقابلہ کرنے کی بجائے جان کی قربانی دینا آسان ہوتا ہے ۔

اس اخلاقی قانون کو زخمی کرنا بڑا بھیانک فعل ہے، اور ایسا اکثر نفسانی خواہش ، لالچ، شہوت، تکبر یا خود پسندیدگی کی بنا پر ہوتا ہے، جب زندگی کے تمام اثاثے غلط جگہ خرچ کئے جائیں تو نتیجے میں جو چیز ہاتھ آتی ہے، وہ ہے پچھتاوا ،،،جس جگہ وقت ،توانائی، توجہ اور دولت خرچ کرنی چاہئے اور خرچ نہ کی جائے تو عدم کا خوف فرد کو جکڑتا ہے، ضمیر کسی زخمی بھیڑئیے کی طرح دبوچتا ہے، شرم انسان کو زمین کی پاتال میں جا گھسیٹتی ہے، ہر طرف سے جکڑے جانے کے بعد زمہ داریوں کا بوجھ زندہ رہنے پر مجبور تو رکھ سکتا ہے لیکن کسی زندہ لاش کی مانند، وگرنہ خودکشی ایسی صورت میں واحد حل سامنے آتا ہے ۔

اس بنا پر خود کشی کا عمل سرزد کرنے والوں میں دو عوامل بڑے نمایاں ہوتے ہیں، ایک ضمیر اور شرم کی باریکیوں، یعنی کامل اخلاقی قانون ، سے واقفیت، دوسرا عقل و فہم میں عام آدمی سے قدرے بلند ہونا، ایسے لوگوں کیلئے ہم ایک اصطلاح ، حساس ، استعمال کرتے ہیں۔

ضمیر اور شرم کی باریکیوں سے واقفیت آخری قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے، جبکہ غیر معمولی ذہانت اخلاقی قانون کو روندنے کا سبب بنتی ہے، مشاہدہ ہے کہ تنگ جبیں افراد گناہ کی گلیوں میں آوارہ گردی نہیں کرتے ، یہ اوسط سے اوپری دماغ ہیں جو ضمیر اور شرم کو لتاڑنے کی جسارت کرتے ہیں ، اجتماعی نکتۂ نگاہ سے معاملہ اس لئے بھی گھمبیر ہے کہ ان عالی مگر، شیطانی جھکاؤ رکھنے والے، دماغوں کے بغیر انسانی ترقی اور ارتقاء ممکن نہیں، لیکن پھر اس کی قیمت بھی فرد کو بعض اوقات چکانی پڑتی ہے۔

یہ جو ہم سنتے ہیں کہ فلاں نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی، قرضوں کی زد میں یا امتحان اور محبت میں فیل ہونے کی وجہ سے کوئی شخص پھندے سے لٹک گیا وغیرہ،،کیا یہ حقیقی وجوہات ہیں؟
بالکل بھی نہیں، یہ محرک ضرور ہیں ،لیکن اکثر کیسز میں اگر چھان بین کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں فرد اپنے ضمیر کو زخمی کرتا رہا، شرم کو ننگا کرتا رہا، جب ظلم تمام حدیں پار کر گیا تو اس اخلاقی قانون نے کسی زخمی بھیڑئیے کی طرح جوابی حملہ کیا ، اور کوئی بھی ناکامی محرک کا کام دیتے ہوئے فرد کو زندگی سے عذاب سے نکال لے گئی۔
اس کیفیت کو روسی ادیب سلتیکوو شیدرن نے اپنے ایک ناول میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ جب ایک کردار اپنے اقارب کا قتل کر چکا تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ اسے کچھ سجھائی نہ دیا، پتلے سے سلیپنگ سوٹ اور سلیپر پہن کر وہ منفی تیس ڈگری کی یخ بستہ سرد رات کو جنگل کی طرف نکل پڑا ، جہاں سسک سسک کر اپنی جان دانستہ گنوا بیٹھا، یہ اسی زخمی بھیڑئیے کا جوابی حملہ تھا جسے اس نے زک پہنچائی۔

لیو ٹالسٹائی اپنی آپ بیتی میں بتاتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں ان پر خود کشی کے دورے پڑتے، وہ شکار پر جانے سے گھبراتے کہ کہیں اپنی کنپٹی پر ہی بندوق نہ چلا دیں، کمرے میں کہیں رسی یا تسمہ نظر آتا تو وہاں سے بھاگ نکلتے کہ فوراً پھندے کی خواہش جاگتی، ایسا اس لئے تھا کہ وہ اپنے اندر اخلاقی قانون کو خوب جانتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اپنی جوانی اس قانون کے بالکل متضاد گزاری، وہ اپنے ضمیر کو زخمی کر بیٹھے تھے اور کشادہ ذہن اس زخمی جانور کے حملے کو خوب پہچانتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خود کشی کرنے والے افراد کئی بنا پر ایسا کرتے ہیں، بعض اوقات شدید نوعیت کی نفسیاتی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، جیسے بائی پولر ڈس آرڈر ، کرونک ڈپریشن وغیرہ، (حالانکہ ڈپریشن کے بے شمار کیسز میں بنیادی وجہ اسی اخلاقی قانون کے ساتھ چھیڑ خانی ہی ملے گی) ، کبھی کبھار کسی قریبی شخص کو تاحیات اذیت اور پچھتاوا دینے کی غرض سے بھی جوشیلے افراد اپنی جان دے دیتے ہیں، ان تمام معاملات پر بات ہوتی رہتی ہے، وجوہات اور علاج پر بھی بحثیں چلتی رہتی ہیں، لیکن اپنے اندر بیٹھے بھیڑئیے کو زخمی کرنا اور پھر اس بھیڑیئے کے جوابی وار کو برداشت نہ کرتے ہوئے خود کو موت کی نیند سلا دینا ایسا معاملہ ہے کہ اس کی تحقیق و علاج طرف دھیان نہیں جاتا ، حالانکہ خودکشی کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply