ہم کب خود کو بدلیں گے؟/شہزاد احمد رضی

ہمارے حالات کب بدلیں گے؟

اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ ‘‘ہم کب خود کو بدلیں گے؟’’ہم کب تک تماش بین بن کر اپنی بربادی کا تماشا   دیکھتے رہیں گے؟ آزادی حاصل کیے ہمیں تقریباً 76برس ہوچکے ہیں۔ یہ عرصہ بہت ہوتا ہے سمجھدار ، باشعور اور عقلمند ہونے کے لیےاورہم سے بعد آزاد ہونے والی اقوام نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔ دور نہ جائیں ، ہمارے وہ پڑوسی جو کبھی ہم سے مرعوب ہوا کرتے تھے، آج ہمارا مذاق اڑارہے ہیں۔ اور ہم خود کو Gulliver’s Travels کے Yahoos ہی ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

جہاں چند لوگ مل بیٹھتے ہیں،وہاں سیاست پر تبصرے شروع کردیتے ہیں ۔ ہر کوئی خود کو سب سے بڑاسیاسی تجزیہ نگار سمجھتا ہے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے لیڈروں کو پہچان ہی نہیں سکے۔ ہم بار بار ان کو آزماتے ہیں۔ ہم بار بار ان سے دھوکہ کھاتے ہیں لیکن ان سے پیچھا نہیں چھڑاتے۔ ہم بار بار انہی سے دوا لینے جاتے ہیں جو ہمارے تمام جملہ امراض(مسائل) کے ذمہ دار ہیں۔ بقول شاعر

میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

یا پھرہم Zombies ہیں۔عقل ، سمجھ بوجھ، حواس کھوبیٹھنے والی زندہ لاشیں ہیں۔ ایک لیڈر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا نجات دہندہ ہے۔ اسے  ـ‘‘زندہ باد’’ کہو۔ اور ہم زندہ باد کہنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر ہمیں کہا جاتا ہے کہ نہیں وہ غدار ہے اور فلاں کایار ہے۔ ہم اطاعت شعار جورو کی طرح ‘‘جی سرتاج’’ کہہ کر اس ‘‘غدار’’لیڈر کو مردہ باد کہنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر ایک نیا لیڈر مارکیٹ میں لایاجاتا ہے اور ہمیں اسے ویلکم کہنے کا حکم ملتا ہے جو ہم بلاچوں چراں پورا کردیتے ہیں۔ میڈیا اسے ہیرو بناکرپیش کرتا ہے لیکن پھر حسب سابق و حسب روایت ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بدیش میں رہنے والے‘‘ بڑے ڈیڈی ’’کو پسند نہیں آرہا کیونکہ وہ اس ڈیڈی کے ابدی دشمن سے محبت وتعلقات کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اب وہ بھی مردہ باد ہے۔ ہماری کیا مجال جو اعتراض کریں۔ یہ ہے ہماری 76سالہ سیاسی سرکس کی کہانی جس میں ہم صرف تماشہ دیکھنے والے ہیں یا نعرے لگانے والے ہیں۔بادشاہوں کو صدیوں پوج پوج کرہم شاہ پرست ہوچکے ہیں۔ ہم ان چند ‘‘شاہی خاندانوں’’ کی زلفوں کے ابدی اسیر ہیں۔ ہم انہیں بار بار آزماتیں ہیں، پھر روتے ہیں، پھر آزماتے ہیں ، پھر روتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہماری وہ حالت ہوچکی ہے کہ بقول شاعر:
تُو مراحوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں،خوف زوال بھی نہیں

جب ہم خود اپنی بربادی کے ذمہ دار ہیں تو دوسروں سے کیا گلہ؟ ہم اپنی قبریں تو خود کھود چکے ہیں۔ نجانے ہمیں اپنے بچوں پر کیوں ترس نہیں آتا؟ ہم یہ ملک کن کے حوالے کرکے جائیں گے؟ ہمارے بچے کیا انہی کے بچوں کے غلام ہوں گے جن کے ہم غلام ہیں؟ ہم آج بھی ذات پات، زبان، رنگ، نسل، مسلک وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ ہماری اسی بد عادت کو سیاسی پنڈت اور ان کے گرو خوب استعمال کرتے ہیں اور چن چن کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیتے ہیں جو بدطنیت اور بدعنوان ہوتے ہیں۔ انہیں Electablesکہا جاتا ہے۔یہ Electablesاتنی کرپشن کرتے ہیں کہ‘‘ نادیدہ قوتوں’’ کے پاس ان کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے۔ یہ نادیدہ قوتیں انہیں بلیک میل کرکے ‘‘کنگ پارٹی’’ بناتی ہیں۔ یہ electablesکبھی اس پارٹی میں ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں تو کبھی اُس پارٹی میں۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں لیکن کبھی ان نام نہاد نمائندوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ کل تک تم جس پارٹی کو ٹی وی ٹاک شوز میں گالیاں نکالتے تھے، آج اس کے ٹکٹ کے حصول کے لیے سرگرداں کیوں ہو؟ہم آنکھیں بند کرکے جاکر انہیں ووٹ دے دیتے ہیں محض اس لیے کہ وہ ہماری برادری، ذات، زبان، رنگ، نسل، مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم خلیفہ دوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال دیتے ہیں کہ عین منبر پر ان کو ٹوک کر ان سے ان کی چادر کا حساب مانگا گیا۔ کیا ہم خود میں اتنی جرات پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں؟ ہم گوروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں ایک ڈرائیور کاسپوت رکن اسمبلی بن گیا۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا ہوسکتا ہے؟ قیام پاکستان خالصتاً جمہوری عمل کی پیدوارتھا۔ وہ جمہوریت کہاں گئی؟ کیا ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟ ہمارے ملک میں ایک مزدور کا بچہ رکن اسمبلی تو کجا، میونسپل کمیٹی کا ممبر تک نہیں بن سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے حالات تب تک نہیں بدلیں گے جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمیں اور ہمارے قائدین کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔یہ اصلاح تبھی ممکن ہوگی جب ہم اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں گے ۔ حقیقی تبدیلی اور جمہوریت تب ہی پروان چڑھے گی جب ہم میرٹ پر ووٹ ڈالیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply