کردار کی اوٹ میں

کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ایک عمر گزار کر بھی زندگی کی جستجو نہیں کر پاتے۔شاید زندگی انکے لیے عمر بھر کی قید کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔بعض دفعہ تو یہ تعین کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کس گروہ میں شمار کریں انسانوں میں یا حشرات میں؟
خدا بھی ایک منصف ہے جس نے زندگی کی کہانی میں کسی کردار کو ملزم تو کسی کو مجرم،مجرم نہیں تو معصوم،معصوم نہیں تو ظالم،ظالم نہیں تو مظلوم کا نام دیا ہوا ہے۔ اور ہدایت کار بھی کمال کا ہے کہ جس کے اشاروں پہ اداکاروں نے اپنے اپنے کردار کو بڑی جانفشانی اور زمہ داری کے ساتھ نبھایا ہے۔ کردار بھی فرضی نہیں حقیقی ہیں اگر حقیقی ہیں تو پس پردہ فرضی کردار کس کا ہے۔ہم سب اس کہانی میں کردار ہیں ایک چہرے پہ کئی چہروں کا لبادا اوڑھے روزانہ پتہ نہیں زندگی جینے کی کتنی بار ریہرسل کرتے ہیں.ہم اپنی مرضی سے ریہرسل تو کر سکتے ہیں مگر خود سے جینے کی آرزو اور کھل کر موت کی امنگ بھی نہیں کرسکتے. ایسا کیوں ہے کیا اس کہانی میں سارے کردار مسافر ہیں ایسا کیوں ہے کہ یہی جنگل جہاں پرانے درختوں کی قتل گاہ ہے تو وہیں نئے درختوں کی رہائش گاہ ایسا کیوں ہے کہ پیڑ مرتے تو یہاں جواں ہیں مگر جنازہ بوڑھے درختوں کا نکلتا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں جو ایک ہمسائے کے بھوکا سونے پر آدمی کو محروم جنت تو بول دیتے ہیں مگر خود نئی نسلوں کے لیے فاقے کی فصل بودیتے ہیں۔کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں حق گوئی صفت خدا ہے اور پھر سچ کہنے والوں کی زبانیں کیوں نوچ لیتے ہیں.جہاں مسلک کی ترویج مذہب کے نام پر ہورہی ہو وہاں کلمہ گو ناپیدہوجاتے ہیں
ایسا کیوں ہے کہ آج ہم نے جسم اور روح کا رشتہ توڑ دیا ہے بقا اور فنا کے تصور کو مٹا دیا ہے زماں اور مکاں کی قید سے بالاتر ہوگئے ہیں اور خدا کی خدائی مسمار کرنے پر تولے ہوئے ہیں
یہ سوچے سمجھے بغیر کے اصل میں بربادی کس کی ہے۔۔اے رحمت العالمین یہ تیرےبندے جن کو تم نے نوری اور ناری سے سجدہ کروایا دیکھ کیسے خود کو اعلی و افضل اور حشرات العرض جیسے گرہوں میں تقسیم کئے ہوئے ہیں اور خود تیری صفت پہ قابض ہوگئے ہیں اس کہانی میں مصنف خود بن بیٹھے ہیں مگر شاید یہ ان کرداروں کا انجام بھول بیٹھے ہیں۔
اسی کہانی کے کسی انجان موڑ جب کسی کردار نے حسد کے روپ میں خود کو مصنف ٹھرایا، تو تاریخ گواہ ہے انہیں کرداروں نے اطاعت سرشت میں اسے سجدے کئے۔اسکی اطاعت کی اور اسی خدا سازی کے دعویداروں کی ترغیب سے ہمیشہ زمانہ راغب آتا رہا۔ مگر جب خود منصف زمین پر اترتا ہے تو وہ حسد کےمارے مصنف بن بیٹھے خداؤں کو روند ڈالتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نمرود،شداد اور فرعون جیسے حسد کے مارے اس کہانی کے کردارں کو تحریر کے کسی تاریک حصے میں ختم کرڈالتا ہے۔ اور کبھی وہ حسین اور منصور جیسے کرداروں کو اپنے گرد اوڑھ لیتا ہے اور پھر جب اسی کرداروں کی چادر اسکے گرد سے اتاری جاتی ہے تو زمانہ صدیوں اس کو دیکھ روتا رہتا ہے۔
شروع سے ہی مصنف اس کہانی میں خود کو کہیں پہ روپوش کئے ہوئے ہے اور جو آنکھوں سے اوجھل ہو اسکا سدا انکار ہی ہوتا ہے۔مگر جب اس کہانی کے اختتام پر غور کریں ازل سے لیکر ابد،تخلیق سے لیکر فنا ہونے تک تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ منصف خود کو عیاں کئے ہوئے ہے
اسکی جھلک ہر کردار سے چھلک رہی ہے،سب کردار ہے اسکے ہونے کا دعوہ ہیں ہر کردار میں اسکا عکس ہے اگر کہانی میں مصنف کرداروں کو ہی بھول بیٹھے تو کہانی اپنا وجود کھودیتی ہے۔
اور زندگی نامی اس کہانی میں مصنف بھی موجود ہے اور کردار بھی مگر فرق صرف یہ ہے کہ کردار تو اپنا پہچان رکھتے ہیں مگر مصنف خود کو کئی کرداروں کی اوٹ میں چھپائے ہوئے ہے.یہی اسکا روپ اس کہانی میں اسے ایشور، گاڈ، رحیم کا نام دئیے ہوئے ہے مگر اسکے موجود ہونے کی دلیل ہے۔

Facebook Comments

شعبان احمد
تعارف بس یہی کہ مفت کا دانشور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply