تتھاگت نظم (16)…..بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے سیریز کی نظمیں(ایک)

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند – –

تتھاگت نظم (16)…..بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے سیریز کی نظمیں(ایک)
منزل
بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے
’’چاہتے ہو کہ اور آگے بڑھو
بڑھتے ہی جاؤ، راستے پیچھے
چھوٹتے ہی جائیں، اور وہ سارے
ہمسفر تھے جو، پیچھے رہ جائیں‘‘

’’چاہتے تو ضرور ہو، لیکن
یہ بھی ممکن ہے،کوئی ایسا پڑاؤ
آئے رستے میں ، اور اس کے بعد
خود کو معذور پاؤ، یا سمجھو…‘‘

’’آگے کچھ بھی نہیں ہے…مایوسی
اور تھکاوٹ ہے … یہ پڑاؤ بھی
وہ بسیرا نہیں، جہاں رُک کر
تم کہو …آج منزلِ ِ مقصود
مل گئی ہے، ٹھہر کے دم لے لیں!
آگے چلنے کے واسطے مجھ کو
تازہ دم ہونا کیا ضروری ہے!‘‘

’’ یہ تھکاوٹ، یہ ماندگی، لوگو
پیش خیمہ ہے ٹوٹ جانے کا
آگے چلنے کا تم میں زور نہیں
اورتم پھر بھی ضد پہ قائم ہو!‘‘

’’ایسی صور ت میں لوٹ جانا ہی
ایک بہتر دلیل ہے…پیچھے
اک نہ اک سنگِ میل ایسا بھی
آیا ہو گا، جہاں تمہارے پاؤں
تھک گئے ہوں گے، اور خوش ہو کر
یہ کہا ہو گا تم نے خود سے ضرور
کتنی آرام دہ جگہ ہے، رک جاؤں؟
رک کے ، پل بھر ٹھہر کے، دیکھوں تو
اس سے بہتر مقام اب شاید
اور آگے ملے، ملے نہ ملے!‘‘

’’یہی بہتر دلیل ہے، اب بھی
لوٹ جاؤ کہ وہ پڑاؤ ابھی
منتظر ہے تمہارے لوٹنے کا!

Advertisements
julia rana solicitors

آگے جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply