لڑکی تھی چھ سات برس کی
دُبلی ، پتلی، اَدھ مریل سی
پھٹا پرانا کُرتا پہنے
اک میلی سی چادر اوڑھے
سوکھے بالوں، پچکے گالوں
بہتی ناک سے سوں سوں کرتی
سڑک کے موڑ پہ
دو کھمبوں کے بیچ میں اک تپّڑ سا بچھائے
اکڑوں بیٹھی ٹھٹھر رہی تھی
کچھ سِکـے ہی شاید اس کو
دن بھر کی گذران کی خاطر مل جاتے ہوں
برفیلا موسم تھا، لیکن چہل پہل تھی۔۔
لوگ بڑے دن کے تیوہار سے کچھ پہلے ہی
نئے لباسوں کی’شاپنگ‘ میں لگے ہوئے تھے۔
مجھ سے جب کچھ بن نہ پڑا تو
میں نے خدا سے گلہ کیا
بہتان تراشے ۔۔۔
بکتا جھکتا چلا گیا میں!
پوچھا، ’’کوئی جواز بھی ہے کیا
بچی کی بد تر حالت کا؟‘‘
پوچھا، ’’ اگر تم سچے، کھرے، امین خدا تھے
تو اس کو یوں چھوڑ نہ دیتے، بھوکا ننگا!‘‘
پوچھا، ’’کوئی مداوا بھی کیا تم نے کِیا تھا؟‘‘

شاید کوئی جواب نہیں بن پایاخدا سے
اک خاموشی میں لپٹا لپٹایا
میں گھر واپس پہنچا
رات کو لیکن
خاموشی کی دھُند چھٹی تو
میرے خدا نے
کان میں میرے سرگوشی کی
’’تم نے مجھ سے یہ پوچھا تھا:
کوئی مداوا کیا تھا میں نے
کیا تو تھا لیکن تم اس کو سمجھ نہ پائے۔
یہی وجہ تھی جس کی خاطر
میں نے تمہیں تخلیق کیا تھا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں