عمر گزار دیجیے! عمر گزار دی گئی۔۔علامہ اعجاز فرخ

عابد شاپ دراصل یوں مشہور ہو گئی  کہ آصف سادس نواب میر محبوب علی خان کے دور میں ایک یہودی مسٹر عابد نے یہاں ایک دوکان کھولی تھی جس میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی تھی، یوں کہیے کہ وہ آج کی سوپر مارکٹ تھی۔ ندی پار کے یہ محلے نیا شہر کہلاتے تھے۔ اس کے قریب برطانوی ریزیڈنسی تھی اور اسی سے متصل ٹروپ بازار بھی، جو کثرتِ استعمال سے آج تُرپ بازار کہلاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد میں باقاعدہ نصابی تعلیم کا آغاز آصف سادس ہی کے دور میں ہوا۔ جدید طرزِ تعلیم سے آراستہ بیشتر  سکول اسی علاقے میں تھے۔ سینٹ جارج گرامر سکول، آل سینٹس، مدرسہ عالیہ، نظام کالج، لڑکیوں کے لیے محبوبیہ ہائی اسکول اور سینٹ اینس بھی اسی علاقے میں تھے۔ محبوبیہ اسکول سے متصل اسٹیشنری اسٹور ہوا کرتا تھا۔ جہاں طلبا  کے لیے تمام درکار سامان مل جایا کرتا تھا۔ صبح اسکول کھلنے سے پہلے اور شام اسکول ختم ہونے کے بعد عسکری کی دوکان پر لڑکے لڑکیوں کا ہجوم ہو جایا کرتا تھا۔ یوں عابد شاپ پر دوکانیں اور بھی تھیں لیکن جب مسیں بھیگنے لگیں تو آنکھوں میں چراغوں کی لو جگمگا اٹھتی ہے۔ چھٹپٹے کی عمر، ضرورت بے ضرورت بھی دوکان پر ہجوم ہو جاتا۔ کچھ نہ کچھ خریدنے کے بہانے۔ چودہ پندرہ برس میں خوابوں کی تشکیل تو شاید نہیں ہو پاتی ہو لیکن پرچھائیاں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔

میری عمر چودہ برس تھی۔ دوات قلم کا دور گزر چکا تھا۔ فاؤنٹین پن کا رواج ہو چلا تھا۔ بال پین ابھی شاید وجود میں نہیں آیا تھا۔ بازار میں ہر قسم کے قلم تھے، سستے بھی اور مہنگے بھی۔ مونٹ بلینک تو پہلی جنگ عظیم سے پہلے بازار میں تھا۔ شیفر بھی دوسری جنگ عظیم کے آس پاس وجود میں آ چکا تھا لیکن یہ صرف صاحبانِ ثروت کی شیروانیوں کی زینت تھے۔ میں نویں جماعت میں تھا اور میرے پاس اشوک پین تھا۔ آٹھ آنے کا۔ میرے ایک ہم جماعت کے پاس چیمپین قلم تھا۔ اسے کاپی میں لکھتا دیکھ کر مجھے یہ خیال آتا کہ کہیں یہ قلم خیال کے ساتھ خود بخود تو نہیں چلتا۔ سبک رو، خوش رنگ، خوش جمال و خوش خرام۔ سطروں کے درمیان لفظ یوں ابھرتے تھے کہ موتی کی لڑیاں جڑی ہوں یا نیلوفر کا گجرا گندھا ہو۔ میں نے اس سے پوچھا: ”کتنے کا ہے یہ قلم؟۔“ اس نے بڑے تفاخر سے کہا: ”پانچ روپے کا۔ میرے پاپا نے دلوایا ہے۔ وہ کہتے ہیں اچھا قلم خوشخطی کا ضامن ہے۔“

میں سوچتا رہ گیا، خط کا تعلق ہاتھ سے ہوتا ہے یا قلم سے۔ کتنا نفیس لکھتا ہے یہ قلم۔ اردو کے نین نقش تو ہیں ہی، انگریزی کی قامت موزوں بھی دیدنی ہے۔ لڑکپن تھا، نازک تشبیہات نے ابھی ذہن میں جگہ نہیں پائی تھی۔ قلم میری آنکھوں میں بس گیا۔ مگر پانچ روپے۔ سوچا ابو سے کہہ دوں گا۔ شام کو ابو گھر آئے۔ مسکرا کر سر پر ہاتھ پھیرا۔ سوچا کہہ دوں۔ ۔کہہ نہ سکا۔ سوچا، اماں سے کہہ دوں۔ اماں کہیں گی تیرے ابو سے کہہ کر دلوادوں گی۔ اماں ہمیشہ یہی کہا کرتی تھیں، لیکن شاید بھول جاتی تھیں۔

میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ میں کسی فکر میں غلطاں ہوں اور کوئی چپکے سے میرے اندر کہہ جاتا ہے: ”اسے ایسا کرلو۔“ اور پھر وہ مشکل حل ہو جاتی ہے۔ اس رات بھی کسی نے چپکے سے کہا ”کسی سے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو تم بھی کر سکتے ہو۔“ پھر حل نکل آیا۔ مجھے روزانہ ایک آنہ جیب خرچ ملا کرتا تھا۔ تانبے کی اکنی۔ میں نے سوچا، ایک روپیہ،سولہ آنے،پانچ روپے۔ اسّی آنے، اسّی دن۔ نہیں اکیاسی دن۔ ایک آنے میں مٹی کی ہُنڈی بھی تو خریدنی ہے۔ اس زمانے میں ایک غریب بچے کے لیے ایک آنہ اس کی ضرورت پوری کر دیتا تھا۔ جس دن خالی ہنڈی میں پہلی اکنی ڈالی، اس میں کھنک سی سنائی دی۔ دس دن، پندرہ دن، پچیس دن، چالیس دن، پچاس دن، ستر دن، سوچا کہیں سے دس آنے مل جائیں۔ دل نے کہا، انتظار اور ابھی، اور ابھی، اور ابھی۔ جب اسّی دن پورے ہو گئے میں نے اپنے خزانے کو یوں سمیٹ لیا کہ کہیں چِھن نہ جائے۔ پورے پانچ روپیے۔ میں نے ان اکنیوں کے نوٹ بنوالیے۔ ایک ایک روپے کے پانچ نوٹ۔

دوسرے دن جب اسکول سے چھٹی ہوئی تو میرے پاؤں زمین پر نہیں تھے۔ میں تیز تیز قدموں سے عسکری کی دوکان پر پہنچا۔ کہا ”مجھے چیمیپن چاہیے۔“ میرے برابر میں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ نو دس برس کی رہی ہوگی۔ لڑکیاں بیل کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہیں، پھر ٹھہر جاتی ہیں، شاید کسی کے انتظار میں۔ عمر کا اندازہ نہیں ہوتا۔ چہرے پر غضب کی معصومیت تھی۔ دُھلی دُھلی سی۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں۔ میں نے سوچا، یہ آنکھیں پہلے بھی کہیں دیکھی ہیں۔ یاد آیا کسی مصور نے وحشی ہرن کی تصویر بنائی تھی۔اس کی ایسی ہی آنکھیں تھیں۔ ان آنکھوں پر جھکی ہوئی پلکیں جیسے یقین پر گمان کا دھندلکا۔ موباف سے بندھی ہوئی، دو چوٹیوں میں ایک آگے کو پڑی ہوئی اور دوسری پیچھے۔ عسکری نے ڈبہ دکھایا۔ کئی قلم تھے،مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے۔ ایک قلم مجھے بہت اچھا لگا، جیسے میرے ہی لیے بنا ہو۔ میرا ہاتھ بڑھا، ابھی میں نے قلم کو چھوا ہی تھا کہ کسی ہاتھ نے میرے ہاتھ کو چھو لیا۔ اس نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں نے ہاتھ ہٹا لیا تو اس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ عسکری نے کہا ”اس رنگ اور ڈیزائن کا ایک ہی قلم ہے۔ آپ دونوں میں سے کوئی لے لیں۔ میں دوسرا لے آؤں گا تو لے لینا یا پھر ،پھر کوئی اور قلم چاہو تو لے لو۔“ میں نے عسکری سے کہا ”انہیں دے دیجیے۔ میں پھر لے لوں گا۔“ اس نے کہا تو کچھ نہیں مگر یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو ”تم لے لو۔“میں پیچھے ہٹ گیا اور لوٹ گیا۔

جب تک اسکول میں رہا عسکری کی دوکان پر جایا کرتا۔ عسکری پوچھتا۔”وہ قلم دیدوں؟۔“ میں کہتا ”وہ نہیں آئی۔“ عسکری کہتا”آئی تھیں۔“میں نے قلم دکھلایا تو قلم کو چھوا۔پوچھا”وہ آئے تھے؟۔ میں نے کہا”ہاں! کہہ گئے آپ آئیں تو دے دینا۔“ انہوں نے قلم کو چھوا اور لوٹ گئیں۔ پھر کہا ”آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟“۔ میں نے آہستہ سے کہا”پہلے کبھی ملے تو نہیں لیکن شاید جانتے ہیں۔“ عسکری مجھے حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔

تعلیم ختم کر کے میں ائیر فورس میں چلا گیا۔ ٹریننگ کے بعد میری پوسٹنگ پٹھان کوٹ ہو گئی۔ اونچی اونچی پروازیں۔ آسمان کہتا”آؤ!میری آغوش کھلی ہے۔“ زمین کہتی”تم چاہے جتنی اونچی پرواز کرو مگر تم میرے فرزند ہو۔ آؤ گے تو میری ہی آغوش میں۔“

اونچی پروازوں سے دیکھنے میں زمین کا حسن دوبالا دکھائی دیتا۔ اس کے زیر و زبر بل کھاتی ندیوں سی  چال۔ پہاڑی پگڈنڈیوں پر خوش رنگ ملبوس میں رچی ہوئی قطار در قطار دوشیزائیں جیسے سبزے پر بیربوٹیاں، جیسے زمردی فرش پر یاقوت و زبرجد کی گلکاریاں۔

31 دسمبر کی شام تھی۔رات میس میں نئے سال کی تقریب تھی۔ ائیر فورس کا میس آج کے پرُ شکوہ کلب سے کچھ کم نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں تقریباً انیس برس کا تھا۔ نیلے سرج کا سوٹ پہن کر جب میں نے آئینے میں خود کو دیکھا تو جانے کیوں خیال آیا کہ حسن اور وجاہت کا ایک تعلق معیشت سے بھی ہے۔ حسن تو فیاض قدرت کی عطا ہے لیکن فاقہ کشی حسن چھین لیتی ہے۔ تیار ہو کر میں کینٹین کی طرف چل پڑا۔ ملٹری کینٹین میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ بازار سے سستی، کیوں کہ اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔ میں شو کیس دیکھتا ہوا گزر رہا تھا کہ میری نظر شیفرز پین پر پڑی۔ گہرا سبز قلم، اوپر چمکدار سنہرا کیپ، کلپ پر سفید ابھرتا ہوا نشان۔ سیلزمین نے کہا”سر! شیفرز کینٹین میں پہلی بار آیا ہے۔ دیکھیے تو۔“ اس نے قلم سامنے رکھ دیا۔ کیس بھی بہت خوبصورت تھا۔ پوچھا ”کتنے کا ہے۔“ کہا ”سر! صرف پچاس روپے  کا۔ امریکہ کا بنا ہوا ہے۔“ میں نے پوچھا ”اور بھی کچھ چیزیں نئی آئی ہیں۔“ اس نے کہا ”جی، سر۔ روتھ میانس انٹرنیشنل سگریٹ، اس کا خوبصورت سگریٹ کیس لائٹر کے ساتھ۔ ویسے ڈن ہِل انٹرنیشنل سگریٹ بھی آئی ہے۔ اس کا سگریٹ کیس، لائٹر، ٹائی کلپ اور بیلٹ بھی۔ ایوننگ اِن پیرس اور ماگراف کی پرفیوم۔ ایوننگ اِن پیرس تو پہلے بھی آتی رہی ہے لیکن ماگراف اپنی مثال آپ ہے۔اس نے سوچا کیا مضائقہ ہے نیا سال ہے۔ دیکھیں کیا لطف آتا ہے۔ پوچھا ”کتنے کاپیکٹ ہے؟۔“ اس نے کہا ”سر!پانچ روپے۔ پورا کارٹن پچاس روپے ہے۔ بیس سگریٹ کی دس پیکٹ ہیں۔“ اس نے تھوڑی سی ماگراف کی پرفیوم میرے ہاتھ پر لگادی۔ خوشبو نے مجھے حصار میں لے لیا۔ میں نے سگریٹ نکال کر جلایا۔ تھوڑا سا کھینچ کر کش چھوڑا۔ مجھے لگا میں بڑا ہو گیا ہوں۔ جوان، خودمختار، پُر اعتماد۔ حوصلہ مند۔ یہ 1962 کی آخری شام تھی۔ پرس نکال کر بل ادا کیا۔ چھوٹے نوٹ اور ریزگاری چھوڑ دی۔ اس نے سلام کر کے کہا”سر! نیا سال مبارک ہو۔ ہر سال آپ کے لیے خوشیوں کی سوغات لائے لیکن آج کی شام آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی۔“ اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ وہ شام آج تک بھولی نہ گئی۔ ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والے بچھڑ گئے،لیکن روتھ مینس، شیفرز اور ماگراف آج بھی میرے ساتھ ہیں۔

نو سال مکمل کر کے میں ائیرفورس سے نکل آیا۔ میرے پاس سب کچھ تھا،لیکن مجھے لگتا تھا کچھ کھو گیا ہے۔ میں خود کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ کوئی خلش تھی، بے نام سی۔ کوئی تلاش تھی، بے سمت۔ کوئی راہ تھی، بے منزل۔ ایک سفر تھا، بے ارادہ۔ ایک پیاس تھی، نا معلوم۔۔ بہت کام کئے، بہت سارے کام، کامیابی قدم چومتی رہی، بے طلب۔

1969 سے 1983 تک کیا گزری۔ کتنی پُرخار وادیوں میں آبلہ پائی مقدر ہوئی۔ تلاش آب میں کتنے سراب نظر سے گزرے۔ روشنیوں کے کتنے جنگلوں نے تاریکیوں کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ نقاب اندر نقاب کتنے بے چہرہ لوگ دکھائی دیے۔ بینائی کے کرب سے کیسے گزرا کئے۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ چودہ سال کی عمر سے چالیس تک پہنچتے پہنچتے تجربوں کی آنچ نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ آسائشوں کے بعد بھی میری بے نام تلاش ختم نہیں ہوئی تھی۔ کہیں کہیں کنپٹیوں پر سفیدی سی چھلکنے لگی ہے۔ اسی سال بازار میں ایک نئی لمبی کار کونٹیسا آئی تھی۔ خوبصورت بھی تھی، سبک خرام بھی۔ میں نے خریدلی۔ عابد شاپ سے گزر کر محبوبیہ اسکول تک پہنچا ہی تھا کہ مجھے عسکری کی دوکان نظر آئی۔ بے اختیار میرا پیر بریک پر رک گیا۔ گاڑی پارک کر کے  میں دوکان میں داخل ہوا۔ دوکان بہت بڑی ہو گئی تھی۔ ہر قسم کی اسٹیشنری سے مزیّن تھی۔ کئی سیلزمین مصروف دکھائی دیئے۔ عسکری بوڑھے ہو گئے تھے۔ دوکان کے بیچوں بیچ ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کیا۔ وہ جواب دے کر مجھے غور سے دیکھا کئے جیسے کوئی شناسائی تلاش کر رہے ہوں۔ اُٹھ کر قریب آئے تو میں نے پوچھا۔ ”آپ کے پاس کوئی قلم ہوگا، چیمپین؟۔“ ان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ پھر حیرت سے کہا۔”تم اتنے بڑے ہو گئے۔“ میز پر سے چابیاں اٹھا کر ایک الماری کھولی۔ ڈبہ  لا کر رکھ دیا، کہا۔ ”کھول کر دیکھو۔“ دل دھڑک رہا تھا۔ میں نے آہستہ سے ڈبہ کھولا۔ قلم یوں ہی رکھا تھا۔ جوں کا توں۔ اسی چمک دمک اور روشنی کے ساتھ۔ میرا جی چاہا کہ چھو لوں۔ مگر رک گیا۔ میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ داہنی طرف دیکھا، کوئی نہیں تھا۔ عسکری مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔ جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔ ”وہ نہیں آئی۔“ عسکری چپ رہے۔ پھر کہا۔ ”آئی تھیں، کئی بار۔ جب یہ دوکان وسیع ہو گئی تو ہم نے انہیں بلوایا۔ میں نے یہی قلم پیش کیا۔ اس نے آہستہ سے چھوا بھی۔ پھر ڈبہ کو بند کر دیا۔ دیر تک خلا میں تکتی رہیں۔“ میں نے کہا۔ ”آپ نے بلوایا۔ آپ جانتے ہیں انہیں۔ کہاں مل گئیں آپ کو۔“ عسکری زیر لب مسکرائے، کہا۔”آپ نہیں جانتے۔“ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔”یہیں تو ہیں وہ۔“ میں چپ رہا۔ پھر عسکری نے خود ہی کہا۔ ”محبوبیہ کی پرنسپل ہیں۔“ میں مہر بہ لب تھا۔ ”وہ کئی بار آئیں۔ جب کالج میں تھیں تب بھی۔ میں نے کئی بار کہا۔ آپ کا قلم رکھا ہے۔ اسے دیکھتی رہیں۔ لیا نہیں۔ ۔اب تو وہ شیفرز استعمال کرتی ہیں۔ گہرے سبز رنگ کا بیرل، سنہری کیپ۔ کلپ پر شیفرز کا مخصوص ابھرا ہوا سفید نشان۔ جیسے آپ کی جیب میں لگا ہوا قلم ہے۔ لگتا ہے دونوں کی پسند ایک ہے۔“ میں نے بھاری آواز میں کہا۔ ”اس قلم کو پیک کر دیجیے۔ ساتھ میں روشنائی بھی۔“ عسکری نے خود اپنے ہاتھ سے ایک خوبصورت ڈبے میں بڑی نفاست سے اسے پیک کر کے میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے اپنے پرس سے سو روپے  کے کئی نوٹ نکالے اور بڑے ادب سے پوچھا۔ ”کیا نذر کروں؟“۔ عسکری نے مسکرا کر کہا۔ ”پانچ روپے۔“ پھر میرے ہاتھ سے نوٹ اور پرس لے کر روپے  واپس رکھتے ہوئے کہا۔ ”چھبیس سال اسے سنبھال کر رکھا ہے۔ آخر یہ قلم اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ خدا تمہیں با مراد کرے۔“

میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیزی سے محبوبیہ کی گیٹ میں داخل ہو گیا۔ زینے طے کر کے میں پرنسپل کے کمرے کے قریب پہنچا۔ دروازے پر سبز چلمن تھی۔ دیوار پر نام کے نیچے ڈگریاں لکھی تھیں۔ ”ایم.ایس.سی۔ پی ایچ. ڈی۔ پرنسپل۔“ خادمہ نے آداب کر کے کہا۔”فرمائیے۔“ میں نے پوچھا ”پرنسپل تشریف فرما ہیں۔“اس نے کہا ”جی۔“ میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اسے دیا۔ واپس آ کر اس نے چلمن ہٹا کر کہا ”تشریف لائیے۔“ میں نے سوچا۔ ابھی محبوبیہ اسکول میں قدیم تہذیب باقی ہے۔

وسیع کمرے میں آبنوسی میز کی دوسری طرف وہ میرے روبرو تھی۔ چہرے پر وہی معصومیت، دُھلی دُھلی سی، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، مصور کی تصویر میں وحشی ہرن جیسی آنکھیں۔ وہی جھکی جھکی سی پلکیں جیسے یقین پر گمان کا دھندلکا۔ بس اتنی سی بدل گئی تھی کہ موباف سے بندھی ہوئی دو چوٹیاں ایک ہو گئی تھیں اور وہ آگے کو پڑی تھی۔ شاید علم کا وقار تھا یا اپنے آپ کی تمکنت، چہرہ روشن روشن سا تھا۔ کچھ لکھ رہی تھی۔ نظر اٹھی تو بے اختیار کھڑی ہو گئی۔ ہلکے سے گردن کو خم کر کے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے دیکھا، نظر جھکالی۔ پھر نظر اٹھائی جیسے کسی بھولی بسری یاد کو سمیٹ رہی ہو۔ مجھے تو وہ چہرہ مل گیا تھا۔ لیکن شاید وہ میرے چہرے میں کسی چہرے کو تلاش کر رہی تھی۔ گھنٹی دبائی۔ خادمہ آئی تو اسے کوئی اشارہ کیا۔ وہ الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ میں نے کہا۔ ”آپ کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔“ یہ کہہ کر میں نے پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے سامنے رکھ تو لیا لیکن تذبذب آشکار تھا۔ میں نے نرم لہجے میں کہا۔ ”دیکھ تو لیجیے شاید آپ کو اس کی تلاش رہی ہو۔“ اس نے پیکٹ کھولا۔ جیسے ہی قلم پر اس کی نظر پڑی، اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ خاموشی ہم دونوں کو تہہ در تہہ گھیر رہی تھی۔ اپنے راگ بکھیر رہی تھی۔ جیسے ستار کی لرزش۔ جیسے وائلن بلک رہا ہو۔ جیسے سارنگی رو رہی ہو۔ جیسے شام ڈھلے بانسری کا ساتواں سُر۔ جیسے اساڑھ کی چاندنی میں برفیلی پہاڑیوں سے اترتی ہوئی چاند کی کرنوں کی راگنی جو بہتی ندی کے کنارے تھم کر سسک رہی ہو۔ خاموشی کے ان سروں کے بیچ مجھے ایک سسکی سی سنائی دی۔ ”کہاں رہ گئے تھے تم۔ بڑی دیر کر دی۔“ ایسا لگا اس کی آنکھوں میں گہرے بادل گِھر آئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خادمہ چائے کی کشتی لئے کھڑی تھی۔ ایک یُگ بیت گیا۔ اس کی آواز سے طلسم ٹوٹ گیا۔ ”چائے حاضر ہے۔“ اس نے ایک کپ میرے آگے رکھ دیا اور ایک اس کے آگے۔ میں نے ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا۔ اس نے بھی کپ اٹھا کر ایک چسکی لی اور کپ رکھ دیا۔ میرا جی چاہا کہ اس کپ کو اٹھالوں، میرا ہاتھ تھوڑا سا بڑھا بھی لیکن جانے کیوں رک گیا۔ میرے اندر وہی خاموشی کا سُر بول اٹھا۔ ”بزدل کہیں کے۔“
میں واپسی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ میرے ساتھ کار تک آئی۔ زینے اترتے میرا ہاتھ اسے چھو گیا۔ اس نے شرما کر مجھے دیکھا۔ میں کار میں بیٹھ گیا تو اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ چہرے پر گہرا اطمینان تھا کہ تلاش پوری ہو گئی۔ لیکن آنکھیں بند تھیں۔ نہ جانے گھنے بادلوں کو برسنے سے روکنے کے لیے یا اس لیے کہ زندگی بھر کی آرادھنا سپھل ہو گئی۔ لیکن مجھے لگا
اس کی امید ِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، ! عمر گزار دی گئی !!
ماضی کا ایک بھولا بسرا ورق۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply