انسان کی فریاد۔۔روبینہ فیصل

یہ جو بوجھ مجھ سے اٹھوائے جاتے ہیں
کیا یہ سب میرے ہیں؟
کیایہ سب انسانوں کی کہانیاں جو عبرت کا نشان تھیں
میری ہیں؟
یا وہ سب اصلاحی کہانیاں، وہ میری تھیں؟
وہ سب قصے میرے حوالے کیوں کیے جاتے ہیں
جن کا امین میں نہیں ہو ں
خدارا!
وہ داستانیں جو میری نہیں میرے حوالے نہ کرو
میں، آدم ابن ِ ِآدم ابنِ آدم ہوں۔۔۔
مگر میں جن بھوتوں کی کہانیوں میں بستا ہوں
وہ ابو کی سنائی ہو ئی الف لیلی کی تین آنکھوں والے دیو کی کہانی
اور ایسی بہت سی مافوق الفطرت داستانیں
میں ان سب کا وارث بننے کو تیار ہوں۔۔۔
کہ ان کا شیطان،ان کا دیواور دیوتا
سب میرے من میں چھپے بیٹھے ہیں
ان کے جنت، جہنم سب مجھ میں بستے ہیں
مگر” وہ” اصلاحی، فلاحی۔۔ عبرت انگیزکہانیاں میری نہیں ہیں
مجھ پر اُن کا بوجھ نہ لادو
وہ آہیں میری نہیں ہیں جنہیں ” میری کہانی” کہہ کر میرے حوالے کیا جا تا ہے
وہ امیدیں، وہ مان، وہ خواب جو سب ایسی انسانی کہانیوں میں ٹوٹتے ہیں
وہ میرے نہیں ہیں۔۔۔۔۔باخدا میرے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کو مجھے بس تھما دیا جا تا ہے، یہ کہہ کر” لو سنبھالو امانت ”
“ایسے سنبھالو کہ اس میں خیانت نہ ہو۔۔ ”
وہ عزتیں، وہ ذمہ داریاں، وہ چار دیواریاں، وہ رسمیں، وہ امیدیں۔۔ کس کس کی ہیں؟
جن کی حفاظت کا واسطہ دے کر کو ن کون سا بوجھ مجھ پر لادا جا رہا ہے؟
یہ سب اجنبی، نا محرم بوجھ ڈھوتے ڈھوتے میں سسکنے لگا ہوں
میرے کندھے جھک گئے ہیں
اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں
میرے اندر کئی روحیں مرگئی ہیں۔۔۔۔
میں جو صرف اپنی روح کی موت کا ذمہ دارہوتا
مجھے ماضی کی سب اموات کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہے
بلکہ مجھے تو۔۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں میں تو
مستقبل میں ہو نے والی تمام اموات بھی تھما دی گئی ہیں
میں بس اپنی موت کا ذمہ لینا چاہتا ہوں
میں بس اپنی کہانی جینا چاہتا ہوں۔
کوئی ہے جو مجھے ایک بار کہہ دے
اٹھو!! اور بس اپنی کہانی کا ذمہ لو۔۔۔ باقی کہانیوں کا تم سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔
خدارا!!
گزری نسلوں کی کہانیوں کا غم تو مجھے نہ دو اور
آنے والی نسلوں کے خدشات سے مجھے آزاد کر دو
مجھے میرا “آج “جی لینے دو۔
مجھے میری اپنی کہانی جی لینے دو۔۔۔

Facebook Comments