نامکمل خواب۔۔محمد فاروق حیدر

وہ ایک دیوی تھی ، حُسن کی دیوی ، اس کی پیدائش کے دن ماں نیم بے ہوش تھی ، اسی مدہوشی ، کرب اور تکلیف کے مابین اس نے ایک خواب دیکھا اور سوچ کا تسلسل قائم ہو گیا۔۔

ہمارے خاندان میں بیٹیوں کو اکثر دو چار جماعتیں پڑھا کر گھر کے کام کاج  میں جوت دیا جاتا ہے ، اسے ساری عمر مردانہ معاشرے  میں زیرِنگیں رہنا پڑتا ہے ، اس کے خواب ، اس کی سوچ ، اس کی پسند و ناپسند سب پرایا ہوتا ہے ، اس پہ مستزاد یہ کہ اس برائے نام زندگی میں بھی اسے قدم قدم لگان دینا پڑتا ہے۔

خواب اور سوچ کا تسلسل باہم چلتے رہے ، میں بیٹی کو بااختیار بناؤں گی ، اسے زمانے کی اعلیٰ علمی روایت سے روشناس کرواؤں گی ، وہ معاشرے میں سر اٹھا کر زندگی گزارے گی ، وہ اپنے فیصلوں میں کسی خودساختہ بندش سے آزاد ہو گی ، اس کی سوچ ، اس کی فکر اور اس کا رویہ اس مردانہ معاشرے میں ایک مثال ہو گا ، درد کی ایک ٹیس اٹھی اور ماں کی آنکھ کھل گئی ، وقت کی اٹھان نے لمحوں میں کیلنڈر پہ کنداں ماہ وسال کے سارے ہندسے پرانے کر دیے ، اب ماں کے خوابوں کی تعبیر قریب آنے لگی تھی ، ایک تاریک معاشرے میں وہ اپنی بیٹی کے سنہرے مستقبل کا انتظار آنکھوں میں سجائے کبھی کبھار اپنے آپ میں کھو جاتی تھی ، فرط ِمسرت میں ایسا کرنا اسے شاید اچھا لگتا تھا۔

تصویر ایک طرف سے مکمل تھی ، اُجلی اور شفاف تصویر ، جبکہ دوسری طرف تصویر کے  سکیچ پر زمانے کی دُھندلاہٹ ابھی باقی تھی ، ماں کا خواب ایک تعلیمی درسگاہ میں گڈمڈ ہو گیا تھا ، وقت کی تیزرفتاری نے اسے مہلت ہی نہ دی کہ وہ سماج ، مذہب اور معاشرتی قدروں کی رعایت کر سکے ، کچی عمر کی ساری کمزوریوں سے پکی عمر والے کسی “کامل العقل” نے فائدہ اٹھایا ، وہ ایک شام تب ٹھٹھکی جب اسے اپنے قدموں کے بوجھل ہونے کا احساس ہوا ، شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

اسے اگر کہیں سے حوصلہ ملنے کی امید ہوتی تو شاید وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے یکسر نہ گھبراتی مگر یہاں ہمت و حوصلہ کی بجائے ایک خوف موجود تھا ، وحشت ناک خوف ۔

اس خوف نے اسے چھپنے پر مجبور کر دیا ، نفسیاتی اذیت کے ساتھ ساتھ اب جسمانی اذیت بھی بڑھ چکی تھی ، یہ درد اتنا بڑھا کہ ایک شام ، ایک گمنام جگہ پر ، ایک گمنام سی آہ کے ساتھ وا ہو گیا ، برابر کے قصور واروں نے البتہ اتنی “نیکی” ضرور کی کہ اس کے دریدہ جسم کو ایک ہجوم کے بیچ چھوڑ گئے ، ویرانے میں پھینکنے میں وہ ٹھٹھکے کہ انہیں نعش کی حرمت کا پاس تھا ، اور  شاید یہ بھی کہ وہ ‘موقع پرستی’ کے ٹھپے سے بچنا چاہتے تھے ۔

سامنے کے دالان میں ایک ایمبولینس آ کر رُکی ، ایک ٹوٹے پھوٹے  سٹریچر پر ماں کا خواب بکھرا پڑا تھا ، ایک مردانہ معاشرے میں ایک خواب کی اتنی قیمت چکانا پڑے گی ، اسے اندازہ نہ تھا ، ماں آہستگی سی اٹھی ، اپنی بیٹی کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا ، مردوں کے ایک انبوہ نے چارپائی کو اٹھایا اور وہ خالی آنکھیں لیے پیچھے ہٹ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

چارپائی بہت وزنی معلوم ہوتی ہے ، ایک مرد نے کندھا دیتے ہوئے گناہ کے وزن کا اندازہ کر کے استغفار پڑھا اور آگے کی جانب بڑھ گیا!

Facebook Comments

محمد فاروق حیدر
امام مسجد ٹوبہ ٹیک سنگھ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply