اقبالیاتی ادب کا جائزہ۔۔پروفیسر مہر سخاوت حسین

علامہ محمد اقبال محض ایک شاعر یا مفکر نہیں بلکہ ایک دبستان، تحریک اور عہد کا نام ہیں۔ ان پر اب تک اندرون و بیرون ملک ہزاروں کتب لکھی جا چکی ہیں اور ان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ا ردو کے کسی اور شاعر یا ادیب پر اتنی کتب نہیں لکھی گئیں جتنی اقبال پر لکھی گئی ہیں۔ یہاں ہم 2019 ء کے دوران علامہ محمد اقبال پر لکھی گئی چند ایک کتب کا سرسری جائزہ پیش کریں گے۔ گزشتہ سال کے دوران ان پر جو مضامین و مقالات لکھے گئے ان کا جائزہ ہم اگلے مضمون میں لیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین معروف اقبال شناس ہیں اور جامعہ پنجاب کی اقبال چئیر پہ فائز ہیں۔ ان کے آنے سے اس چئیر کو ایک نئی آب و تاب ملی ہے۔ ان کی کتاب ’’اقبال: وجود زن اور تصویر کائنات‘‘ اقبال کے عورت کے متعلق تصورات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال خواتین کے متعلق کس قدر بلند خیالات رکھتے تھے۔ ان کی ایک اور کتاب مقائسہ بال جبریل کے نام سے دوبارہ شائع ہوئی۔ ان کی دیگر کتب محسنات شعرِ اقبال اور تضمینات اقبال بھی اقبالیاتی ادب میں خاص مقام و مرتبے کی حامل ہیں۔

ڈاکٹر وحیدالزماں طارق دورِ حاضر کے ایک بلند پایہ اقبال شناس ہیں۔ ان کی کتاب Allama Iqbal and the Sages of the East گزشتہ سال مکمل ہو چکی تھی اور پریس بھی جا چکی تھی مگر بعض طباعتی مسائل کی وجہ سے شائع نہ ہو سکی۔ یہ بہت جلد شائع ہورہی ہے۔ یہ اقبال پر لکھی جانے والی ایک بہت اچھی کتاب ہے۔

ڈاکٹر محمد عارف خاں میر پور سے تعلق رکھنے والے معروف اقبال شناس ہیں۔ ان کی دو کتب گزشتہ سال شائع ہوئیں مباحث خطبات اقبال اورخودی: قرآن فہمی کا ایک ضابطہ۔ یہ دونوں کتب اقبال کے فکر و فلسفہ کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔ اول الذکر کتاب کو میاں ساجد علی کے ادارے علامہ اقبال سٹیمپس سوسائٹی کی طرف سے منعقدہ اقبال پہ لکھی گئی بہترین کتاب کے مقابلے میں اول انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔

خرم علی شفیق ایک بہت معروف اقبال شناس ہیں۔ اقبال پہ ان کی بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ وہ زیادہ تر حیاتِ اقبال ہی پہ لکھتے ہیں۔ گزشتہ سال ان کی اقبال پر کتاب اقبال کی منزل شائع ہوئی جس میں انھوں نے علامہ اقبال کی زندگی کے یادگار واقعات کا بہت عمدگی سے ذکر کیا ہے۔

ہارون الرشید تبسم سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک معروف اقبال شناس اور اقبال پر بہت سی کتب کے مصنف ہیں۔ ان کی چار کتب تحریم اقبال، محافظ اقبال ایوب صابر، اقبال شناس خواتین اور معراج اقبال گزشتہ سال شائع ہوئیں۔

ڈاکٹر رمضان گوہر بھی اقبال شناسی میں اہم مقام کے حامل ہیں اور اقبال پہ بہت سی کتب کے مصنف ہیں۔ گزشتہ سال ان کی کتاب اقبال کااحسان اور پیغام شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے بہت سادہ اور دلنشیں انداز سے اقبال کے پیغام پہ روشنی ڈالی ہے۔

ساہیوال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر مظفر حسین وڑائچ ایک معروف اقبال شناس ہیں۔ وہ ذکر رسول در کلام اقبال (فارسی)، ذکر رسول کلام اقبال میں، اقبال اور اندلس کی اسلامی میراث جیسی وقیع کتب کے مصنف ہیں۔ گزشتہ سال ان کی کتاب کلام اقبال میں خودی بے خودی منظر عام پہ آئی۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال کے فلسفہ خودی اور بے خودی کی بہت اچھی وضاحت کی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے اعلیٰ تحقیقی معیار کو ظاہر کرتی ہے۔

اعجاز الحق اعجاز لاہور سے تعلق رکھنے والے اقبال شناس ہیں۔ ڈاکٹر وحیدالرحمن خاں نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے سینے میں اقبال شناسی کا تمام سامان موجود ہے۔ وہ اقبال پسندوں کے لیے صبح امید ہیں، اقبال دشمنوں کے لیے صورتِ فولاد ہیں جب کہ اقبال فروشوں سے اغماض برتتے ہیں۔ وہ لاہور میں ایک ادارہ اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے چلا رہے ہیں۔ گزشتہ سال ان کی اقبال پر دو گراں قدر کتب شائع ہوئیں۔ اقبال و شیکسپئیر اور مبادیات ِ فلسفہ اقبال۔ ان سے پہلے ان کی کتاب اقبال اور سائنسی تصورات بھی شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتب عمیق اور اعلیٰ تحقیق کا نمونہ ہیں۔

سری نگر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹراعجاز لون جو اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور سے بھی وابستہ ہیں کی کتاب Iqbal, Ali Shariati and Islamic Sociology ایک وقیع کام ہے۔ اس کتاب کا تحقیقی معیار بلند ہے۔

بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ڈاکٹر محمد آصف کی کتاب اقبال اور نیا نو آبادیاتی نظام بھی ایک اچھا تحقیقی کام ہے۔ اس کتاب سے اقبال پر لگائے جانے والے بعض بے سروپا الزامات کی بھی بہت احسن انداز سے تردید ہو جاتی ہے۔

حمید ہاتف نے دو قلندر گفت کے نام سے جوکتاب لکھی ہے اس میں اقبال اور رحمان بابا کے فکری مماثلات پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیق خان کی کتاب اقبال، فیض اور ہم بھی اہم ہے۔ اس میں انھوں نے اقبال اور فیض کے ذہنی روابط پر بعض فکر انگیز نکات پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا شہباز کی کتاب ذکر ِ زن : علامہ اقبال کی شاعری میں خواتین کا تذکرہ بھی اس موضوع پہ اچھا کام ہے۔ عنایت علی پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہیں اور اقبالیات کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ انھوں نے اقبال: بچوں اور نوجوانوں کے لیے کے نام سے ایک اچھی کاوش ہے۔ در برگ لالہ وگل میں افضل رضوی نے کلام اقبال میں موجود پھولوں اور دیگر نباتات کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب اچھی تحقیق اورعمدہ طباعت کا نمونہ ہے۔ ریاض احمد لارنس کالج گھوڑا گلی میں اردو کے استاد ہیں ان کی کتاب معترضین اقبال اور ایوب صابر بھی ایک عمدہ تحقیقی کام ہے۔ تفاخر محمود گوندل کی اقبال اہل بیت کے حضور بھی عمدہ تحقیق کا نمونہ ہے۔ اسما انصاری کی اقبال دشمنی کا ایک پوشیدہ باب بھی گزشتہ سال شائع ہونے والی ایک اچھی کتاب ہے۔ حمیرا جمیل احمد نے کلیات اقبال کی سادہ اور مختصر شرح لکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاکہ عام قارئین کلام اقبال کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ گزشتہ سال ان کی اس سلسلے کی ایک کتاب شرح بال جبریل شائع ہوئی ہے۔ نوید مرزا کی ایک کتاب اقبال کہانی (استاد کا احترام) بھی گزشتہ سال شائع ہوئی اس میں انھوں نے بچوں کے لیے بہت سبق آموز کہانی تحریر کی ہے۔ بچوں میں اقبالیات کے فروغ کے لیے اس قسم کی کتب بہت ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ محمد الیاس کی اقبال کا ایوان دل، شجاع الدین کی اقبال مزاح کی زد میں، بابر جاوید کی اقبال کا تصور اخلاق، خالد سردار کی کولونیل ازم، محکومیت اقبال کی نظر میں بھی اقبالیاتی ادب میں اچھے اور لائق مطالعہ اضافے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ: اوپر جس کتب کے مقابلے کا ذکر آیا ہے اس میں ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ اور چند دیگر مصنفین کی کتب شامل ہونے سے رہ گئیں اور اعجازالحق اعجاز کی کتب اس لیے شامل نہ کی گئیں کہ وہ اس مقابلے کے منصف تھے اور انھوں نے خود ہی اپنی کتب کو مقابلے میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا۔)

 

Facebook Comments