غریبوں کا خواہش نامہ/مسلم انصاری

اب جس برس اُس نے بتایا کہ اُسے ٹھنڈے کمرے میں سونے کی خواہش ہے تب وہ جھونپڑی میں اپنی کانی بیوی اور اپاہج بیٹی کے ساتھ تھا۔
پھر ایک رات بس سے اُترتے ہوئے اُسی بس کے ٹائروں تلے کچلا گیا۔
شناختی کارڈ جیسی علامتوں کے بارے میں اُس کا مدعا صاف تھا کہ جب حکمران ہمارے نام تک نہیں جانتے ہم جیب میں اپنی پہچان کی علامات کیوں لیکر گھومیں!
بھلا ہو ان لڑکوں کا جنہوں نے اس کی لاش سرد خانے میں رکھوادی
یوں وہ بھی کہہ سکتا تھا کہ : اُس نے ایک رات ٹھنڈے کمرے میں گزاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تمہاری کیا خواہش ہے؟”
“ہیلی کاپٹر میں سفر کرنا چاہتا ہوں”
ایک اور ایسا ہی فرد سوال کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہا تھا

آج کراچی سے راولپنڈی جاتی ہوئی ہزارہ ایکسپریس کی دس بوگیاں اتر گئیں برتھ پر سوتے ہوئے اس کے جسم سے کئی من وزنی لوہا آ لگا
برتھ کی فوم اور چھت کے لوہے کے بیچ پچکے ہوئے اس کے جسم کو سپاہی دستے کے نوجوانوں نے کھینچ کر نکالا تو ایک ٹانگ اندر ہی رہ گئی
اب بھی بھلا ہو ،ان نوجوانوں کا جنہوں نے تیزی سے بہتے خون کو روکنے کی خاطر اسے فوجی دستے کے ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے ہسپتال بھیجنا چاہا۔(سپنے پورے ہوتے ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors london

ہیلی کاپٹر اوپر اٹھ رہا تھا اس نے ٹرین کی طرف منہ کرکے مسکرانے کی کوشش کی مگر واپس گردن نہیں گھما سکا
سپاہی اس کے آخری الفاظ محفوظ کرنے کے لئے اپنے کان اس کے منہ کے قریب لے گیا
اس نے کہا : امی ۔ ۔ نیچے رہ ۔۔  گئی  ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں نے سنا ہے تم اپنے قائد سے بہت محبت کرتے ہو؟ کبھی ان سے ملنے کی خواہش نہیں ہوئی؟”
“یہی تو میری آخری خواہش ہے بس ایک بار مل سکوں”
لڑکا مسکرایا
پچھلے دنوں کی بات ہے باجوڑ جلسے میں وہ اپنے باپ کے ہمراہ شریک تھا چنے بیچنے والے ایک بچے سے اس نے بیس روپے کے دو پیکٹ بنوائے ،بچہ اس کی طرف چنے بڑھا ہی رہا تھا کہ بلاسٹ میں ہر طرف چنے بکھر گئے۔
پھر اس نے اپنے ساتھ کی کرسی پر بیٹھے باپ کو دیکھا وہاں فقط دو ٹانگیں تھیں
باقی باپ بھی بکھرا پڑا تھا
(پورے تابوت کی جگہ ایک کاٹن میں دو ٹانگیں کیسی لگتی ہیں)
ہسپتال کے ایام میں اس کا قائد اس سے ملنے آیا تو وہ گلے لگ کر روتا رہا
اس وقت اگر اس سے کوئی کہتا کہ “سپنے پورے ہوتے ہیں” تو وہ کسی کا بھی گلہ گھونٹ دیتا
باجوڑ دھماکے میں 13 سالہ شہید ابوذر کے باپ نے کہا : “ابوذر کا سَر نہیں تھا ہم نے اسے بِنا سر کے دفنایا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی کسی سے پوچھتا ہے کہ : تمہاری کیا خواہش ہے؟ تو سامنے والا بس اتنا ہی کہتا ہے
“ہم عام عوام ہیں ہماری خواہشات کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ہماری کوئی خواہش نہیں!”

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply