الفاظ -ایک استغاثہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

رن آن سطور میں لکھی گئی ایک نظم

مستغیث ایک
میں الفاظ کا بخیہ گر ہوں، مجھے
اچھا لگتا ہے حرف و سخن کا توازن
مقفیٰ، مسّجع، وہ الفاظ جن سے
ترنم کی چشمک ، تغزل کا جادو
سریلی، مدھُر، نغمگی پھوٹتی ہو
زباں میری اک نوک ِسوزن ہے جس سے
پروتا ہوں میں لفظ و معنی کی مالا
بناتا ہوں نقش و نگار اپنی نظموں
میں ایسے کہ عش عش کریں لوگ سارے
اشاروں، کنائیوں کی سونے کی لنکا
چمکتی ہوئی راجدھانی ہے میری
میں حرف و عبارت کا، صرفی ونحوی
تراکیب اور استعاروں کی اقلیم کا
صدر ِ اعلیٰ ہوں۔۔۔
اردو زباں میری ہی مملکت ہے
کہ میں تاجدار ِ سخن ہوں
اس الفاظ کی سلطنت کا

مستغیث دو
مجھے کیا پڑی ہے
کہ لفظوں کی جادو گری کے فلیتے
ہوا میں اڑاؤں
مسجّع عبارت
صدائے مقفیٰ تو کاریگری ہے
تماشا ہے سرکس کا، بازیگری ہے
مجھے اچھی لگتی ہے
اندر کے قلزم کی گہرائیوں میں
بسی اپنے لا صوت ’’میں‘‘ کی سیاحت
وہ خاموشیاں جن میں الفاظ سے ماورا
ایسے معنی کی پرتیں نہاں ہیں
جنہیں جاننے کے لیے
ڈوبنا شرط ہے، میرے بھائی
مجھے کیا پڑی ہے کہ لفظوں سے الجھوں
انہیں کاٹوں، چھانٹوں
سنواروں، مقفیٰ، مسّجع بناؤں
کہ الفاظ تو خارجی چوب کاری
ہے، پالش ہے، تزئین ہے
اس عمارت کی جو حسن ِ سادہ کی
رعنائی و خوشنمائی میں تو خوبرو ہے، مگر
ڈیکوریشن سے گلگوں
سنواری، سنگھاری ہوئی ایک گڑیا نہیں ہے

ثثالث
چلو آؤ ، دیکھیں
کوئی باہمی قدر ایسی کہ جس پر
بہم متفق ہوں فریقین اس استغثاثے کے دونوں

سنیں آپ، حرف و ندا کی قلمرو کے حاکم
سنیں اور سمجھیں یہ نکتے
زباں ایک آلہ ہے
اظہار کا، کشف و اعلان کا
پردۂ غیب سے انکشافِ حقیقت کا
ہاتِف کا فرمان، توجیہہ و تاویل
زباں ہی مگر
کذب و مکر و ریا کا پلندہ بھی ہے
اختراع و بناوٹ، تصنع کا غازہ
اسے لیپ کر پیش کرتا ہے، بھائی
لُغہ اک خدا داد برکت ہے، لیکن
سخن ساز لوگوں کے ہاتھوں میں ہے
آلہ ٔ ژاژ خائی
سمجھتے نہیں آپ؟
جب بھی حقیقت کو لفظوں کی چادر
سے ڈھانپا گیا ہے
جگت ساز اغراق،ہرزہ سرائی ہی سچ بن گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سُنیں آپ۔۔۔ خاموشیوں کے سمندر کے غّواص
یہ بات دل میں اتاریں
کہ مقیاس ِ حر ف و ندا ہی وہ معیار ہے
جس سے تصدیق و کون و مکاں
امتیاز ِ بصیرت و بینائی ممکن ہے اندھے یقیں سے
یہ سمجھیں کہ حرف و صدا ہی وہ توفیق ہے
جس سے ’’ہونے‘‘، ’’نہ ہونے‘‘ کی تفسیر ممکن ہوئی ہے
سمجھتے نہیں آپ؟
اک ’’اوم‘‘ کی گونج ارض و سما کو جگاتی ہوئی
’’کن فکاں‘‘کا فقط ایک ارشاد ِ عالی
سبھی سورجوں کو، زمینوں کو
اپنے مداروں میں پابند رکھتا ہوا
یہ صدا، گونجتی، تھرتھراتی ہوئی آج بھی معتبر ہے
خموشی‘‘، ’’نہ ہونا‘‘ تو مرگ ِ مسلسل ہے
نا زندگی ہے
۰ کہیں کچھ تصنع ہے دونوں میں ،بھائی
خموشی غلط ہے
مگر
حرف و صوت و ندا کا تصنع بھی
مکر و ریا ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply