• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:درعا شام کا وہ شہر جہاں اِس خانہ جنگی کی چنگاریاں پھوٹیں۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط29

سفر نامہ:درعا شام کا وہ شہر جہاں اِس خانہ جنگی کی چنگاریاں پھوٹیں۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط29

شام کے جنوبی حصوں کے حُسن اور وہا ں مختلف النوع تہذیبوں کے عروج زوال کی کہانیاں اور اُن کی پس ماندہ اور گم شدہ باقیات کے حُسن وجمال اور انوکھے پن کے قصوں کے تذکرے ایک دو سے نہیں بہتوں سے سنے۔ احمد فاضل کا کہنا تھا سیریا جنوب کے بغیر ادھورا ہے۔ حتیٰ کہ مونا عمیدی نے بھی کہا۔ ”شام کے جنوب، جنوب مغرب اور جنوب مشرق کو دیکھے بغیر نہ جانا۔“ پس تو پھر لازم ٹھہرا کہ علی سے بات کی جائے۔ اور اس کا تو وہ حال کہ جسے کہیں چور نالوں پنڈ کاہلی۔ اب زینبیہ کے ٹیکسی والوں سے بھی خاصا یارانہ ہوگیا تھا۔ پر وہ جو ابوالعباس تھا بیبا اور محبت والا ہونے کے ساتھ ساتھ دل کا بھی بڑااچھا تھا۔ ڈنڈی مارنے کی قطعی کوشش نہ کرتا تھا۔دانت نکالتے اور ہنسی آنکھوں میں بھرتے آیا اور ساؤتھ کا جانے کا سن کر بولا تھا۔

”بہت اچھی طرح سے لے کر جاؤں گا۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کچھ دکھا دوں گا اور بتاؤں گا بھی بہت کچھ۔ آپ کو تو میرا اچھابھلا اندازہ ہو ہی گیا ہے۔ مگر میرا خیال رکھناہے۔“ ہم چاروں ہنس پڑے۔”تو پہلے نہیں رکھتے کیا؟“ فاطمہ تنک کر یوں بولی کہ کسی اور کے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ تو پہلی بات یہ بڑی اہم ہے کہ بُصریٰBosraرومن صوبے کا دارلخلافہ ہی نہ تھا بلکہ مکہ جانے اور مکہ سے آنے والے تجارتی قافلوں کا بھی یہ پڑاؤ گھر تھا۔ مکے کے نام میں جو روحانی کشش ہے وہی شوق کو مہمیز کرنے کو کافی تھی۔ مگر معلوم ہوا تھا کہ اِس بُصریٰ کے ساتھ تو اور بھی بہت سی دل کو چھونے والی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی جب عباس نے یونانی، رومن اور نباتین Nabateanزمانوں کے گرجا گھروں، محلوں اور گاؤں، قصبوں شہروں کا تذکرہ شروع کیاتو جیسے سکینہ دفعتاً بول اُٹھی۔ ”ارے ہاں ہاں مجھے یاد آیا ہے میں نے اِن کی بابت اپنے سکول کے زمانے میں تاریخ کی کتاب میں پڑھاتھا۔ یاد آرہا ہے۔“

میں نے حیرت سے فاطمہ کودیکھاتھا۔ ہم نے اپنے سکول کی کسی تاریخ جغرافیہ کی کتاب میں یہ حال احوال نہیں پڑھا تھا۔ یہ کس سکول کی پڑھی ہوئی ہے؟ فاطمہ کو میری آنکھوں میں جو نظر آیا تھا اس نے اُسے فوراً وضاحتی بیان جاری کرنے کے لئے کہاتھا۔ تو بھئی ماننا پڑا کہ فاطمہ سرگودھا کونونٹ کی سینئر کیمرج پاس تھی۔ اس نے یقیناً پڑھا ہوگا۔ ہم ٹٹ پونجیئے ٹاٹ سکولوں کے بچوں کو اُن کے محدود اور رَٹے والے سلیبس اتنا علم کیسے دیں۔ سوچنے کی بات تو تھی۔ تاہم سوچنے کا تو وقت ہی نہیں تھا کہ گاڑی خان دانونKhan Dannoun نامی ایک مستطیل صورت کی دو منزلہ عمارت کے سامنے رُک گئی۔

پرانے وقتوں کی سرائے اپنے کشادہ صحن، خوبصورت برآمدوں،کیاریوں میں اُگے پھول پیڑوں اور اپنے قدیمی تاریخی حُسن کے ساتھ سامنے تھی۔ کیسی ظرف والی عمارت تھی کہ یہاں پورے کے پورے کاروان بمعہ ان کے مال واسباب، گھوڑوں گدھوں اور خچروں سمیت اس میں سما جاتے تھے۔ قرونِ وسطیٰ کا زمانہ، سراؤں کا کلچر اپنے عین عروج پر۔ تاجروں کے قافلے اور اُن میں قیام کی حسین شامیں اور راتوں کے پہلے اور دوسرے پہروں کا حُسن اور بانکپن۔ تصور کی آنکھیں دیکھتی تھیں وہ منظر جب اِن کشادہ آنگنوں میں آلاؤ جلتے۔ سازندوں کی ٹولیاں سازوں سے کھیلتیں اور مغنی کی آواز کہ جیسے شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو جیسے محاورے کی عکاس لگتی تھی۔ رقاصاؤں کے پہناوے، ادائیں اور رقص کے انداز برق بن کر مسافروں کے دلوں پریوں گرتے کہ دل می رودز دستم صاحب دلاں خدارا کسی منچلے کی پکار اِس ماحول میں گونج جاتی تھی۔ مرغن کھانے اور جام کے دور، بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔پڑھا ہوا کیا کیا نہ یاد آیا۔ سینیمنSanamein سٹی پر رُک کرعباس نے وہ رومن مندر دکھایاجو ملحدوں کا ضرور تھا لیکن یونانیوں کی قسمت کی دیوی ٹیکاTekke کے نام مخصوص تھا۔ خوبصورت طرز کا تھا۔ طاق ودر کی ساخت کمال کی تھی۔ یہاں ہم نے چائے پی۔ بسکٹ کھائے۔ تھوڑا گھومے پھرے۔ تھوڑا آگے بازنطینی دور کی چند اور یادگاریں شیخ مسکنMiskin اور ازراIzraa دیکھنے کو ملے۔ مارجو رجئیسGeorgius کا چرچ دیکھا۔ یہ یادگاریں اس وقت کی ہیں جب شہنشاہ کونسٹینن نے عیسائیت کو اپنایا تھا۔ شام کا سب سے قدیم گرجا گھر کہیں بڑے اور کہیں چھوٹے چھوٹے پتھروں کی دیواروں والا صلیب کے نشانوں سے سجے اُس کے طاق ودر کے ماتھے نامانوس سی تحریروں کی ماتھا پٹیوں سے سجے بہت اچھے لگے تھے۔

عباس نے لمبا چوڑا لکچر دینا چاہا۔ میں نے روکا اور کہا۔ ”عباس تم نے اچھا کیا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع یہ یادگاریں ہمیں دکھادیں۔ کچھ بتا بھی دیا۔ مگر اب آگے بڑھو۔ وقت کم اور چیزیں بہت ہیں۔“ تاریخ کا یہ ورثہ یہ خزانہ ایک دوسرے سے قریب قریب واقع ہیں۔ درمیان میں کہیں چھ، کہیں بارہ اور کہیں سولہ کلو میٹر حائل ہیں۔ گھنٹے آدھ گھنٹے بعد گاڑی سے اُترنا، گھومنا پھرنا ہمیں بھی لطف دے رہا تھا۔ درعاDara سرسبزشاداب ہرے بھرے کھیتوں کے سلسلوں سے نہال، جا بجا انگوروں کی بیلوں سے لدا نظر آیا۔ پرانا نام تو ہوران (Hawran)تھا۔ شدید موسمی شدتوں کا شکار علاقہ مگر قدرت نے بھی نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ اناج کا گھر بنا یا ہوا ہے۔ صدیوں پہلے بھی اور آج بھی۔ تب یہ روم کی روٹی کی ٹوکری تھا اور آج شام کا اناج گھر۔ جسے اللہ یہ سعادت بخشے۔ پتہ چلا تھا کہ یادگاریں تو بے شمار تھیں۔ پر قدرت کے بے رحم عناصر کہیں زلزلے، کہیں مہیب آندھیاں، کہیں آگ،کہیں جنگیں سبھوں نے اِس کی یادگاریں مٹانے میں اہم کردار ادا کئے۔ بہرحال مکہ کو جانے والی ایک تنگ سی پٹڑی دیکھ کر ضرور آنکھیں ٹھنڈی کیں کہ یہی الحجاز ریلوے تھاجس سے بیسویں صدی کی دوسری تیسری دہائی میں حجاج کے قافلے سفر کرتے تھے۔ جس کا تیا پانچہ کرنے میں لارنس آف عریبیا نے مرکزی کردار ادا کیا۔

درعا بہت خوبصورت شہر ہے۔ ہم نے اس کے پرفضا ماحول میں واقع ریستوران پر گاڑی رُکوا کر چائے اور سنیکس کھائے اور عباس سے جانا کہ ایسی خوبصورت سرسبز جگہوں کو عربی میں غوطے کہتے ہیں۔ درعا اُردن کا ہمسایہ ہے۔ چھلانگ مار واور اُردن پہنچ جاؤ۔ جی تو چاہا مگرمسئلہ وہی کاغذ نہیں تھا پاس۔ یہ مارچ 2011کے دن تھے جب اخبار کی ایک چھوٹی سی خبر نے متوجہ کیا۔شام کے جنوبی شہر درعا میں احتجاج۔احتجاجیوں پر فائرنگ۔میں نے احمد فاضل کو میل بھیجی۔ میں نے لکھا تھا۔ احمدیہ مارچ کے خوبصورت نشیلے سے دن ہیں۔کِھلے کِھلے روشن روشن سے۔گلاب کے پھولوں اور چنبیلی کی کلیوں میں مہکتے ہوئے بچپن،جوانی اور اُدھیڑ عمری کے اِن دنوں کی جاذبیت اور حسن کی کیا مداح سرائی کروں کہ جب دلوں میں امنگیں اور ولولے انگڑائیاں لیتے تھے۔میرا ملک امن و سکون کے ہنڈولے میں جھولے لیتا تھا۔مگر اب بہار کی رعنائیاں خون کے پانیوں میں تیرتے ہوئے آتی ہیں۔دل کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا رہتا ہے، کب کہیں سے کوئی تڑپا دینے والی خبر آجائے۔ چلو ہم تو اِس عذاب سے گزر رہے تھے مگر تمہارے ہاں کیا بات ہوئی؟ احمد مجھے لکھواِس خبر نے مجھے بے کل کردیا ہے۔میں تو اِن دنوں ذہنی طور پر سیریا میں رہتی ہوں۔لکھ رہی ہوں نا اس پر۔مجھے تمہاری میل کا شدت سے انتظار رہے گا۔ اوردرعاکے دلکش نظاروں کی آب وتاب پر اُس وقت خون کے چھینٹوں کا چھڑکاؤ ہوگیا جب احمد فاضل کی ای میل مجھے ملی۔ اس نے لکھا تھا۔ آپ وہاں گئی تھیں۔ درا کتنی خوصورت جگہ تھی۔ اُن باغ بہار جگہوں جہاں چنبیلی کی خوشبوئیں ہر سو بکھری رہتی تھیں جہاں آبشاریں ماحول کا حُسن بڑھاتی تھیں۔ جہاں پہاڑ، میدان سبزہ، درخت لہلہلاتی فصلیں اور توانا خوبصورت لوگ بھرپور زندگی کا احساس دلاتے تھے۔ وہاں آگ بھڑک اٹھی ہے۔شعلوں نے قیامت برپا کردی ہے۔بندوق کی گولیوں نے زندگی ارزاں کردی ہے۔ کیا تھا؟ سکول کے نوخیز، جوشیلے بچوں کا احتجاج۔ ان کے باغیانہ اور حکومت سے نفرت وبیزاری کا سکول کی دیواروں پر اظہار۔ اپنے اور اپنے والدین کے مسائل اور مشکلات کا ذکر۔

میں نے تفکر سے یہ سب پڑھا تھا اور تب کیا پل کے لئے نہیں سو چا تھا کہ یہ آگ پورے ملک کو لپیٹ میں لے لے گی یوں کہ تاریخ کی ہڈیوں جوڑوں میں اُترا ہوا ملک خوفناک اور لرزا دینے والے منظروں کی زد میں ہوگا۔ میں نے دھیرے سے آنسوؤں کو صاف کیا اور ماضی کے اُ س خوبصورت دن کے ان خوبصورت لمحوں میں لوٹ گئی ہوں جب میں درعا میں تھی۔ لوگ میری بصارتوں میں چلے آئے تھے۔ان کی آوازیں میری سماعتوں میں گونجنے لگی تھیں۔مزے کی بات کہ جتنے لوگوں سے باتیں ہوئیں سب تعلیم یافتہ، بیدار مغز اور سیاسی شعور سے بہر ور نظر آئے۔ یہ سب عباس کے جاننے والے تھے۔ مدھم لہجے میں ذرا دبے دبے انداز میں بات کرتے تھے۔ عباس کی شہہ تھی کہ کھل کر بات کرو۔ اکثریت بشار کے آمرانہ اقدام کو پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک اُدھیڑ عمر کے مرد نے قدرے تلخی سے کہا تھا۔ ”دراصل جمہوریت کسی بھی ملک کا حُسن ہے۔ یہاں پہلے باپ نے ہمیں غلام بنائے رکھا۔ اب بیٹا ہمارے سروں پر سوار ہوگیا ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ وہی ان کے عزیز رشتہ دار چہیتے، ملک کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکے کی بات کتنی خوبصورت تھی۔ہم لوگ ان کے چہرے دیکھ دیکھ کر تنگ آگئے ہیں۔کائنات کی ہر شے تبدیلی کی مظہر ہے۔انسان اپنے روزمرہ کے معمولات میں یکسانیت کو پسند نہیں کرتا۔ہم نئے لوگ، نئے چہرے،نئے خیالات اور نئی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ میں نے پیار بھری نظروں سے لڑکے کو دیکھا تھا۔ اور خود سے کہا تھا۔ ”سیریا کا مستقبل یہی تو ہیں۔“

احمد فاضل کی ای میلوں نے جو تصویریں کھینچی تھیں وہ تڑپاتی تھیں۔ ہائے تب کاش کچھ جان لیتی۔ کاش چھ سال بعد کے آنے والے واقعات کی کوئی ایک چھوٹی سی جھلک ہی دیکھ لیتی۔ شاید پھرمیں البنین ہائی اسکول کی عمارت کے سامنے جا کھڑی ہوتی۔ اُن بیرونی دیواروں کو دیکھتی جہاں بچوں کی چھوٹی سی شرارتیں اِس چھ سالہ جنگ کا پیش خیمہ بن گئیں۔ جس میں تین لاکھ افراد ہلاک ہوگئے اور دو کروڑ دس لاکھ آبادی والے ملک کا تقریباً چوتھائی حصہّ دربدری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ معاویہ صیاصنہ فروری کی خوشگوار خنکی لئے اُس صبح بیدار ہوا تھا تو اس کے اندر کہیں کوئی اضطراب یا کوئی بے چینی نہ تھی۔ آنے والے منحوس واقعات کے سائے کا کوئی ہلکا سا عکس بھی چہرے پر سایہ فگن نہ تھا۔ چودہ سالہ لڑکے نے سپرے کی نئی بوتل اپنی الماری سے نکال کر بیگ میں ڈالی۔ آج کلاس کے لڑکوں کا پروگرام یہ کھیل کھیلنے کا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سکول اسمبلی میں جب بھی اُن سے بعث حکومت کے حق میں نعرے لگوائے جاتے وہ چند دوست شرارتاً اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیتے۔ بشار اور اس کے باپ کے بڑے بڑے پوسٹر فریڈ م سکوائر میں ٹنگے دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔ مگر چپکے چپکے اشاروں کنائیوں میں۔ اپنے بڑوں کی طرح انہیں بھی پتہ تھا کہ خفیہ کے لوگ بہت متحرک ہیں اور کون ان کا بندہ ہے کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے مصر اور تیونس میں ہونے والے ہنگامے ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ دل میں اپنے ہاں بھی انقلاب کی آرزو پالتے تھے اور امید کرتے تھے کہ کچھ ایسی ہی بیداری کی لہر شام میں بھی آئے گی۔ معاویہ پڑھنے میں تیز ذہین بچہ تھا۔ سکول آف ہونے کے بعد اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سکول کی دیواروں پر سیاہ رنگ سے یہ الفاظ سپرے کرتے ہوئے لکھے۔ ”اے ڈاکٹر(بشار) اب تمہارے جانے کی باری ہے۔“ اپنے ایک انٹرویو میں اُس نے کہا۔ ”اس وقت جب ہم قہقہے لگاتے اور ہنستے تھے۔ ہم نے کیا ایک لمحے کے لئے یہ سوچا تھا کہ ہم کتنی بڑی جنگ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ کاش ہمیں اس کا تھوڑا سا بھی ادراک ہو جاتا تو یقیناً ہم کبھی ایسی حرکت نہ کرتے۔“

رات کو گھر کے دروازے بجے تھے۔ معاویہ کے والدآرکیٹکچرل انجینئر تھے۔ انہوں نے پولیس کے لوگوں کو معذرت خواہانہ انداز میں بتایا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ تین دن بعد خفیہ ایجنسی کے لوگ اُسے سوتے ہوئے کواٹھا کر لے گئے۔ دمشق میں بد نام زمانہ دہشت ناک سیل میں اُسے رکھا گیا۔ جہاں تاروں سے مارا جاتا۔ یخ پانی میں بٹھایا جاتا۔ بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے، کلائیوں سے سیل کی چھت سے لٹکایا جاتا۔حتیٰ کہ معصوم چودہ سالہ بچے نے اپنے ساتھیوں کے نام اُگل دئیے۔ ان بچوں کو بھی اسی طرح اٹھا کر ایسی ہی سختیوں سے گزارا گیا۔ درعا کے لوگوں کا احتجاج اور مظاہروں نے شدت اختیار کی۔ فوج آئی اور مظاہرین پر گولی چلائے بغیر واپس چلی گئی۔ فوج کے آنے اور مظاہرین پر گولی چلانے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کرنل عفیف بزنجی جیپ سے اُترا۔ شہر سے باہر کھلے میدا ن میں لوگوں کا ایک جم غفیر جمع نعرے لگاتا اور للکارتا تھا۔ اُس نے پل بھر کے لئے سوچا، انہیں دیکھا اور خود سے کہا۔ ”وردیوں میں جو لوگ گاڑیوں سے اُترے ہیں وہ کون ہیں؟ سب شامی، اسی دھرتی اور اسی مٹی کے بیٹے اور اس کے رکھوالے۔ اور جن پر گولیاں چلانے کے لئے آئے ہیں اُن کا جرم کیا ہے؟ اور وہ کون ہیں؟“ اندر نے جواب دیا تھا۔ ”وہ تو بچے تھے جنہوں نے سکول کی دیواروں پر سپرے کا کھیل کھیلتے کھیلتے بشار کو جانے، ہمیں جمہوریت چاہیے، ملک کو انقلاب کی ضرورت ہے جیسے نعرے لکھ دیئے تھے۔ وہی تو اِس گلستان کے پھول ہیں۔ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ اثاثہ ہیں۔ اس کے نونہال ہیں۔ یہ اُن کے بچوں جیسے ہی تو ہیں۔ کرنل بزنجی بخوبی جانتے تھے کہ ان کے ساتھ ٹارچر سیلوں میں کیا کچھ ہوا تھا۔اِس خیال نے سوچوں پر غلبہ پالیا تھا کہ اگران کے بچوں کے ساتھ ایسا ہوتا تب؟

Advertisements
julia rana solicitors

کرنل بزنجی کی یادداشتوں کی سطح آب پر روس میں اپنے ایک فوجی پیشہ ورانہ تربیتی کورس کے دوران اپنے ایک روسی دوست سے سنا ہوا ایک واقعہ ابھر کر سامنے آیا۔ ستر کی دہائی کے آغاز کا واقعہ جب سوویت کے جنوبی حصّے کے ایک شہر نووچر کاسک کے ایک بہت بڑے کارخانے میں بڑی دھماکہ خیز بغاوت ہوئی تھی۔ وجوہات غریب آدمی کی زندگی کو تنگ کرنے کے حربے تھے۔ گھروں کی فراہمی کا تقاضا تھا۔ گوشت، مکھن کی قیمتوں میں بہت اضافہ کر دیا گیا تھا۔ کام چھوڑ کر چودہ ہزار مزدور باہر نکلا تو شہر کا چوتھائی حصہّ بھی اُن کی حمایت میں ساتھ ہولیا۔ مقامی پولیس کے سپاہی آئے تو اُلٹا انہیں منتشر کرنے پکڑ دھکڑ کر نے کی بجائے انہیں ہلاّ شیری دینے، اُن کا حوصلہ بڑھانے اور اُن کی پیٹھ ٹھونکنے میں جُت گئے۔ شہر کی انتظامیہ نے فوج بلا لی۔ اب ایک نیا اور انوکھا تماشا دیکھنے کو ملا۔ ٹرکوں اور جیپوں سے فوجی جوان اور جونیئر افسر چھلانگیں مار کر اُترے اور سیدھے جا کر ہڑتالیوں کے گلے لگے۔ اُن کے منہ ماتھے چومے اور بولے ڈٹے رہنا۔ اِن حرامزادوں کو مزہ چکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ زاروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے بندوقیں اٹھائیں۔ فضا میں لہرائیں۔ خالی فائر گئے اور بلند آہنگ نعروں کے ساتھ یکجہتی کا اعلا ن کرتے ہوئے کہا۔ ”ارے یہ تو غریبوں کو مار دینا چاہتے ہیں۔“ اب کریملن میں تو بھونچال آگیا۔ تھر تھلی مچ گئی۔ کیا ہو؟ سر جوڑ کر بیٹھے۔ تجویز ہوا کہ پس ماندہ دیہی علاقوں کی فوج بلائی جائے۔ سوکا کیشیائی فوج آئی۔ یہاں کس قدر حیرت انگیز بات ہوئی کہ فوج کے سینئر افسر کو جب گولی چلانے کا حکم ملا وہ اپنی جیپ سے اُترا۔ اُس نے فوج کے سامنے اونچی آواز میں جیسے للکار کر کہا۔”میں اِن غریب نہتے لوگوں پر گولی چلاؤں۔ کیسے ممکن ہے؟ یہ تو سچے کھرے لوگ ہیں۔ محلوں میں رہنے والے اُن سے ان کے نوالے چھین لینا چاہتے ہیں۔ حق سچ کا ساتھ دینا میرا پہلا فرض ہے۔ رہی یہ جان تو اِس جان کی اوقات ہی کیا ہے؟“ اُس کے ساتھ ہی اُس نے خود کو گولی مارلی۔ کرنل عفیف کے لئے یہ بڑا فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ اُ س نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ گولی کن پر چلائیں گے؟ اپنے لوگوں پر اپنے بچوں پر؟ یہ درعا کے بچے نہیں ہمارے ہیں۔“انہوں نے گولی چلانے اور انہیں گرفتا ر کرنے سے انکار کر دیا۔ اور یہ انکار ہی عذاب بن گیا۔ کچھ ایسے ہی واقعات حما، لاطاکیہ اور بنی یاس وغیرہ کے قصبات میں پیش آئے۔ بس تو یہ فیصلہ اسی دن اور اسی وقت ہوگیا تھا کہ اب انہیں کیا کرنا ہے؟ جیبپوں کے رخ مڑے اور پورا دستہ فری سیرین آرمی میں شامل ہونے چلا گیا۔اور یہی فیصلہ معاویہ کا تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔ اُ س نے بھی بندوق ہاتھ میں تھام لی۔ایف ایس اے میں ہی اسنائپر کی گولی میری ٹانگ میں لگی۔ جس سے ٹانگ میں لنگ پڑ گیا۔ سچی بات ہے اتنی تباہی کے باوجوداسد حکومت ابھی بھی قائم ہے۔ اِس جنگ نے کتنے تحفے کتنی سوغاتیں بخشیں۔ شام کا خوبصورت چہرہ گہنا گیا۔ بستے رستے لوگ اُجڑ گئے۔ دربدری مقدر بن گئی۔ رشتے فنا ہوگئے۔ آنسو گالوں پر مسلسل بہنے اور آنکھیں گیلی رہنے لگیں۔ نئے مذہبی جنوبی گروہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے جنہوں نے دہشت کا بازار گرم کردیا۔ کاش میں جانتا ہوتا کہ میری یہ چھوٹی سی شرارت کتنی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی تو کیا میں ایسا کرتا؟ ٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply