بوسیدہ نظام اور ہم عوام۔۔۔عزیزخان

کل محتر مہ مریم نواز کی احتساب کورٹ لاہور میں پیشی تھی میں بھی عدالت جانے کے لیے گھر سے نکلا۔مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ آدھا شہر بند ہے مال روڈ اور اطراف کے راستوں پر پولیس نے بیریرز لگائے ہوئے تھے اسکول ، کالج جانے والے بچے ،دفاتر میں جانے والے مرد اور خواتین پریشان تھے کہ کس طرح اپنی منزل تک پہنچیں ۔یہ قصہ نیا نہیں ہے جب بھی حمزہ شہباز ، رانا ثنااللہ، مریم نواز و دیگر سیاسی شخصیات جو کسی نہ کسی جرم میں بند ہیں کی عدالت میں پیشی ہوتی ہے تو یہی حال ہوتا ہے۔صبح سے شام تک پولیس ملازمین ڈیوٹی پرکھڑے ہوتے ہیں مگر صرف عوام اور پولیس ذلیل وخوار ہورہی ہوتی ہے ۔ یہ تماشہ نجانے کب تک چلے گا اگر صرف یہ کیا جائے کہ احتساب کورٹ کے جج جیل میں چلے جائیں اور وہاں جاکر ریمانڈجوڈیشل دے کر آجائیں تو نہ یہ سڑکیں بند ہوں اور نہ عوام پریشان مگر ان کی کون سنتاہے۔

بحثیت قوم شاید ہم بے حس ہوچکے ہیں یا پھر ہم اسی قابل ہیں کہ ہم پر ایسے حکمران مسلط کردیے جائیں۔یہ کام حکومت کا ہے صرف ایک حکم کے ذریعے کسی بھی جج کو اس بات کا پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ جیل میں جاکر کسی بھی ایسے ملزم کا ریمانڈ دے جسکی وجہ سے امن و اماں میں خلل پیدا ہوسکتا ۔

میں 2001میں ایس ایچ او سٹی چشتیاں تعینات تھا مجھے بذریعہ وائرلیس سمن موصول ہوا کہ کل مقدمہ قتل کی گواہی کے سلسلہ میں ایڈیشنل سیشن جج صادق آباد پیش ہونا ہے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ہائی کورٹ ڈائریکشن کیس ہےاور آنا بہت ضروری ہے پولیس ملازمین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں ہائی کورٹ کانام آجائے تو پھر سب کام چھوڑ کر صرف اسی کا حکم مانا جاتا ہے۔شام ہوچکی تھی میں نے اپنےایس ایس پی سے اجازت طلب کی اور صادق آباد کے لیے روانہ ہوگیا کیونکہ صبح 9 بجے ہر حال میں عدالت میں پیش ہونا تھا ۔چشتیاں سے صادق آباد تقریباً300 کلومیٹر دور ہے۔ساری رات سفر کرنے کے بعد صبح عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وکلاء ہڑتال پر ہیں ریڈر جج صاحب نے مجھے اگلے ہفتے کے لیے پابند کردیا۔ اگلے ہفتے پھر اسی طرح اتنا سفر کرکے صادق آباد پہنچا تو پتہ چلا جج صاحب رخصت پر ہیں۔ریئاٹر منٹ کے بعد بھی سرگودھا کے ایک مقدمہ قتل میں میرے وارنٹ جاری ہوئے میں ملتان سے سرگودھا پہنچا مگر معلوم ہوا کہ میری گواہی ہی نہیں ہے۔اس طرح کے واقعات پولیس کے ملازمین کے لیے نئے نہیں ہیں۔

پچھلے دنوں میرے بیٹے کے ایک دوست ڈاکٹر آصف نے بھی اسی بات کا شکوہ کیا کہ وہ گواہی کے سلسلہ میں ایک عدالت میں پیش ہوئے سارادن گزرجانے کے بعد ان کی گواہی نہ لی گئی بلکہ اگلی تاریخ دے دی گئی ۔ عدالت عالیہ بہاولپور میں پیش ہونے کے لیے ملازمین و سائلان صادق آباد ، بہاولنگر جیسے دور دراز علاقوں سے صبح آٹھ بجے عدالت پہنچ جاتے ہیں ۔ضمانت میں خاص طور پران کا نمبرتین ،چار بجے آتا ہے یا پھر لیفٹ آور ہوجاتاہے۔لاہور ہائی کورٹ میں بھی بھکر ، فیصل آباد ، میانوالی جیسے دوردارز علاقوں سے سائلین آتے ہیں اور انھیں حالات کا سامنا کرتے ہیں ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے عدلیہ میں جدید ریفارمز کیں۔۔عدالتوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے کمپیوٹر فراہم کیے گئے اور کیمرے لگائے گئے ۔عدالتوں کو ہدایت کی گئی کہ “سکائپ “پروڈیو کال کے ذریعے گواہان کے بیانات قلم بند کیے جائیں تاکہ دور دراز سے آنے والے ملازمین کے وقت کا ضیاع نہ ہومگر اس پر اب کوئی عمل نہیں ہورہا ہے ۔اُسی طرح گواہان طلب کیے جاتے ہیں جو دور دور سے آتے ہیں یا تو وکلاء ہڑتال پر ہوتےہیں یا پھر کوئی اور وجہ جس سے تاریخ پہ تاریخ پڑتی رہتی ہے۔

کل چیف جسٹس پاکستان نے پولیس ریفامز کے سلسلہ میں سینٹرل پولیس آفس پنجاب کا وزٹ کیا ۔چاروں صوبوں کے آئی جی صاحبان بھی وہاں موجود تھے ۔چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے پر گواہوں کے ساتھ ساتھ جھوٹی گواہی لکھنے پر تفتیشی بھی اتنا ہی گہنگار ہوگا اور سزا کا مستحق ہوگا جتنا جھوٹی گواہی پر گواہ ۔ جب کوئی جرم سرزد ہوتا ہے اورایف آئی آر درج کرنی ہوتی ہے تو پولیس والے سب سے پہلےمدعی ڈھونڈتے ہیں ،قتل کے مقدمات میں خاص طور پر مقتول کے بھائی ، باپ یا قریبی رشتہ دار کو مدعی بنایا جاتا ہے اگرچہ وہ موقع پر موجود ہی نہیں ہوتا اسی طرح اکثر گواہان بھی موقع پر موجود نہیں ہوتے مگر ایف آئی آر میں ان کا نام لکھوا دیا جاتا ہے ۔اگر پولیس آفیسر ایسے مدعی و گواہان کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنےسے انکار کرے تو اس پر فوری طور رشوت لینے اورمقدمہ کو خراب کرنے کا الزام آجاتا ہے۔پولیس ملازمین کو دوران ٹریننگ صرف یہی سکھایا جاتا ہے کہ آپ نے استغاثہ کی تائید کرنی ہے ۔ بطور پولیس آفیسر میں نے دیکھا کہ کسی بھی تفتیشی کو جب تفتیش ملتی ہے تو وہ پہلی ضمنی میں گواہان کے بیانات زیر دفعہ 161ض ف تحریر کرتا ہے اور ان بیانات میں حرف بہ حرف ایف آئی آر کی تائیدہوتی ہے۔کیونکہ ان بیانات پر گواہان کے دستخط نہیں کیے جاتے اس لیے بوقت بیان گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک بے گناہ ملزم کی بے گناہی پر پولیس کسی جج کوڈسچارج رپورٹ پیش کرتی ہے تو جج صاحب پولیس کی رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے اور ملزم کو جیل بھجوادیتے ہیں۔ دوسری صورت میں اگر تفتیشی یہ بات لکھ دے کہ یہ گواہ موقع پر موجود ہی نہ تھے اور ان کو بلوا کر ان کے بیانات درست طریقے سے لکھے تو پھر بھی یہ افسران پولیس اس تفتیشی کو مقدمہ میں تخریب کاری کا موجب سمجھتےہیں اور سزا دیتےہیں۔ ایک ایسی ایف آئی آر جس کو پرائمری یا مڈل پاس ہیڈ کانسٹیبل بناتا ہے اسی ایف آئی آر پر مقدمہ کا انحصار ہوتا ہے ۔ اسی ایف آئی آر پرعدالت عالیہ اور عدالت اعظمٰی کے جج صاحبان ضمانت لیتے ہیں یا ضمانت منسوخ کرتےہیں۔سزا یا بے گناہی کا تعین بھی اسی ایف آئی آر اور اسکے گواہان سے ہوتا ہے بعض اوقات اس جھوٹی ایف آئی آر اور گواہوں کی وجہ سے بے گناہ لوگ پھانسی بھی چڑھ جاتے ہیں۔ پولیس اور عدلیہ کاسارا نظام درست ہونے والا ہے صرف تفتیشی کو سزا دے کر ہم اس نظام کو درست نہیں کرسکتے.

۔تمام سنگین جرائم میں اور اس کے علاوہ بھی کافی ایسے جرم ہیں جن میں تفتیشی اپنی مرضی سے تفتیش نہیں کرسکتا ۔ڈی ایس پی ، ایس پی اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کی مرضی کے بغیر نہ تو کوئی جرم ایزاد ہوتا ہےنہ حذف ہوتا ہے

ضلعوں میں ڈی پی او کی مرضی کے بغیر قتل کا کوئی ملزم نہ تو بے گناہ ہوتا ہے نہ گنہگار۔ چیف جسٹس صاحب کی یہ بات درست ہے کہ قتل یا ضررکے مقدمات میں مدعی کئی بے گناہ افراد کے نام بھی لکھوا دیتا ہے جسکی وجہ سے اصل ملزمان بھی سزا سے بچ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قانون موجود ہے عمل نہیں ہورہا ریاست میں قانون عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہی قانون مصیبت کاباعث ہیں ۔ان قوانین میں ترمیم کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے مگر ہمارے قانون بنانے والے ادارے جن میں بیٹھنے والے لوگوں کو عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں صرف اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔اگر مناسب قانون سازی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام الناس کو اس کے ثمرات نہ پہنچیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply