رودادِ سفر (36) ۔۔شاکر ظہیر

مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ کہاں سے تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد میرے بیوی کی سہیلیوں کی لسٹ میں کوئی نہ کوئی نئی انٹری ہوتی رہتی اور مجھے اس کا علم بھی شام کو گھر پہنچ کر ہوتا کہ وہ سہیلی کو کھانے پر لازماً گھر لے کر آتی تھی ۔ شاید اس کی طبیعت ہی ایسی تھی کہ ان سے گھل مل جاتی تھی ۔ یہ خواتین ، لڑکیاں وہی تھیں جو مختلف علاقوں سے کام کے سلسلے میں ایوو ( yiwu ) شہر آئی تھیں ۔ یہ اکثر مختلف عرب ممالک کے لوگوں کے دفاتر میں بطور عربی چائینز ٹرانسلیٹر ( translator ) کام کرتی تھی اور زیادہ تر کا تعلق کانسو ( Gansu ) کے صوبے سے ہوتا، کیونکہ کانسو صوبے کے کچھ علاقوں میں مسلمانوں کے مدارس اس وقت تک موجود تھے جہاں سے عربی سیکھ لیتیں ۔

یہ خواتین اپنے ساتھ ہمارے گھر دفاتر کی بھی نئی نئی کہانیاں لے کر آتی تھیں اور دفاتر کے مالک جس ملک کے ہوتے اس کی بھی ۔ یوں مختلف علاقوں کے رسم و رواج اور اس علاقے کے لوگوں کی طبیعت کا علم ہوتا رہتا ۔

ایک دن شام کو ایک بہت دبلی پتلی سی چھوٹی سی لڑکی سلمی کی انٹری ہوئی ۔ سلمی ایک یمنی بھائی کے آفس میں کام کرتی تھیں جو بقول ان کے زیدی شیعہ تھے ۔ دیکھنے میں سلمی کی عمر کوئی سترہ اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں ہوگی ۔ سلمی نے بتایا کہ وہ کانسو ( Gansu ) صوبے کے اس علاقے سے تعلق رکھتی ہے جو چھن ہائی ( Qinghai ) صوبے کے بالکل ساتھ ہے ۔ اور ہوئی ( Hui) نہیں بلکہ سالار نسل سے ہے ۔ اور ان کی اپنی الگ زبان ہے ۔

زیدی شیعہ والی بات تو میں نے ایک طرف رکھ دی وہ تو بعد میں دیکھوں گا اس کا کیا کرنا ہے ۔

سلمی جو سالار نسل سے تعلق رکھتی تھی یہ اس نسل کے مسلمان سے پہلی ملاقات تھی ۔ اس لیے اشتیاق سے اس کے بارے میں پوچھنا شروع کیا ۔ سلمی نے بتایا کہ کچھ روایات کے مطابق ہم مغربی ترک سٹیٹ کے اغوز فبیلے کی شاخ سے ہے ۔ چین کے تھنگ ( tang dynasty ) بادشاہت کے دور میں ہم لوگ یہاں ا کر آباد ہوئے ۔ صدیوں یہاں آباد رہنے سے ہم تبت ، ہان ( Han ) چائنیز اور باقی مسلمان ہوئی ( Hui ) کے ساتھ مکس ہوتے رہے جس سے ہماری نئی زبان بنی ۔
ایک اور روایت کے مطابق دو بھائی حرمان ( Haraman )اور ادمان(Ahman ) جو سمرقند کے رہنے والے تھے مسلم علما تھے اپنے علاقے کے حکمران کی مخالفت کی وجہ سے اٹھارہ لوگوں کے ساتھ ہجرت کر کے یہاں آئے ۔ اس روایت کے مطابق یہ ان سالار لوگوں کے آباء اجداد ہیں ۔ یہ اٹھارہ لوگ سفید اونٹوں پر سوار تھے سفر شروع کرنے سے پہلے اپنے علاقے کا پانی ، مٹی اور قران مجید ساتھ لیا اور مشرق کی سمت رخ کیا ۔ یہ قافلہ چائنا کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا یہاں ٹھہر گیا ۔ اس علاقے میں پہنچنے کے بعد اپنے ساتھ لائے پانی اور مٹی کو اس علاقے کی مٹی پانی جیسا پایا تو یہیں ٹھہر گئے ۔ ایک اور سمرقند کے چالیس لوگ کا قافلہ بھی ان کے ساتھ راستے میں شامل ہوا ۔ سلمی کے بقول قرآن کا وہ نسخہ جو کہ وہ دو بھائی اپنے ساتھ لائے تھے آج بھی ( Jiezi Mosque ) جیزی کی مسجد میں موجود ہے ۔

میں نے ان کے عقائد کے بارے میں پوچھا کیونکہ اس علاقے میں کئی تصوف کے فرقوں کی لڑائیوں کے بارے میں مَیں نے سنا تھا ۔ ( سلمی نے کچھ تفصیلات دیں  اور کچھ میں نے دوسرے ذرائع سے جمع کیں ) ۔ سلمی نے مشکل ہی سے یہ موضوع شروع کیا ۔

1670 میں ایک کاشغری صوفی آفاق خوجہ نے ان سالار لوگ میں تصوف کی تبلیغ کی اور اٹھارویں صدی میں ما لئچی ( Ma Laichi ) نے ان میں نقشبندی ذکر خفی کے عقائد کو پھیلایا ۔ 1760 اور 1770 کے دوران ایک اور چائنیز صوفی ما منگ چی ( Ma Mingxin ) نے تصوف کے دوسرے فرقے ذکر جہریہ کی تبلیغ کی اور بہت سے سالار مسلمان اس فرقے میں شامل ہو گئے اور اسے اس وقت کی چھن حکومت ( Qing dynasty ) نے نئی تعلیم ( new teaching ) کا نام دیا گیا ۔ حالانکہ باہر سے دیکھنے پر دونوں ایک ہی لگتے ہیں فرق صرف اونچی آواز اور خاموشی سے خدا کے ذکر کا ہے لیکن ان کے پیروکاروں کے درمیان اکثر لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے ۔ یہ فرقہ وارانہ فسادات چھوٹے پیمانے پر تو جاری رہے لیکن 1781 میں ایک بڑے ہنگامے کی شکل اختیار کر گئے ۔ حکومتی اداروں کے خیال کے مطابق اس بدامنی کی وجہ یہ نئی تعلیم یعنی ذکر جہریہ والے بنے کیونکہ اس سے پہلے امن و امان کا کوئی مسئلہ کبھی پیش نہیں آیا تھا ۔ حکومت نے ان کے سربراہ ما منگ شن (Ma Mingxin ) کو گرفتار کر لیا ۔ علاقے سن ہوا ( Xunhua ) سے جہریہ فرقے کے لوگ اپنے علاقے کے مسلمان امام کے ساتھ گرفتار امام کو دیکھنے آئے اور حکومتی قلعہ کا محاصرہ کر لیا ۔ حکومت نے قلعہ کی دیوار پر زنجیروں سے جگڑے امام ما منگ شن ( Ma Mingxin ) سامنے کیا اور پھر اس کا سر قلم کر دیا ۔ اور باغیوں نے محاصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن پھر شہر کے قریب پہاڑیوں میں مورچہ زن ہو گئے کچھ ہان چائنیز اور ہوئی مسلمان بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ مرکزی حکومت نے کمک بھیجی تو ذکر خفیہ والے حکومتی فوجوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس بغاوت کو کچل دیا ۔ یہ واقعہ نقشبندی سلسلے کے ان دو گروہوں کی ہمیشہ کی عداوت بن گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی چالیس فیصد آبادی کو قتل کر دیا گیا ۔ حکومت نے ذکر جہریہ کے کچھ خاندانوں کو سنکیانگ کے علاقے ایلی ( illi ) کی طرف علاقہ بدر کر دیا اور آج بھی ان کی تقریبا 4000 کی آبادی وہاں موجود ہے ۔

1890 میں سالار مسلمانوں میں ایک اور فساد خود ذکر خفی کے دو گروہوں روایتی تعلیم والے اور کچھ اصطلاحات چاہنے والوں میں پھوٹ پڑا جس میں چھن حکومت ( Qing dynasty ) نے ریفارمز کا ساتھ دیا ۔ اور یہ معاملہ پھر 1895 سالار نسل کے مسلمانوں میں بغاوت کا سبب بن گیا ۔ اس بغاوت میں ہوئی ( Hui ) نسل کے مسلمانوں نے جو فوج میں تھے حکومت کی باقی فوجوں کے ساتھ مل کر اس بغاوت کو کچل دیا ۔ یعنی یوں کہیں کہ ہوئی نسل ( Hui ) نسل کے مسلمانوں نے سالار نسل کے مسلمانوں کی بغاوت کو حکومت کے ساتھ مل کر ختم کر دیا

اس علاقے کے ہوئی ( Hui ) مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے دوران سفید ٹوپی پہننے کی وجہ سے سفید ٹوپی والے اور سالار مسلمانوں کو نماز کے دوران کالی ثوپی پہنے پر کالی ٹوپی والے مسلمان کہا جاتا ہے اور ان سالار کے درمیان یہ غیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔

موجودہ دور میں سالار کے جنرل ( Han Youwen ) جو نیشلسٹ آرمی میں تھے جاپان کے خلاف حکومت کی طرف سے جنگیں لڑیں ۔ بعد میں انہوں نے چیرمین ماؤ کی کیمونسٹ فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دی اور ان کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز رہے ۔

اسی علاقے کے تصوف کا ایک اور گروہ 1901 برآمد ہوا جسے جن شن تھانگ ( Jinxingtang ) کہا جاتا ہے ، جسے کے سربراہ ( Ma Mingren ) ما منگرین ہیں ۔ انہوں نے حنفی ، اور کنفیوشس کی تعلیمات کو مکس کر کے یہ گروہ بنایا ۔

سلمی بتاتی جاتی اور میں اور میری بیوی سنتے جاتے ۔ سلمی کھانا کھانے کے بعد تو چلی گئی لیکن میرا امتحان شروع ہو گیا ۔ میری بیوی نے اس اسلام جہریہ اور خفی کے متعلق پوچھنا شروع کیا میں نے صرف اتنا کہا کہ یہ ایک اونچا خدا کا ذکر کرتے ہیں اور دوسرے خاموشی سے دل میں ۔ ماریا نے کہا تو یہ اس بات پر ایک دوسرے سے لڑتے کیوں رہے ۔ میں نے کہا مجھے کیا معلوم تمہارے علاقے کے ہیں جیسے تم لڑاکی ویسے یہ ۔ بات مذاق میں  آئی گئی ہو گی لیکن رات مجھے بھی نیند نہ آئی سوچنے لگا کیا یہ بھی اسلام ہے ۔ میں نے تو اسے بہت سادہ سا سمجھا تھا ایک خدا جو خالق ہے اس نے انسان کی فطرت میں سادہ سا دین دیا اس کی تفصیلات کےلیے اپنے پیغمبر اتارے جو خدا کا پیغام وضاحت سے دے کر چلے گئے ۔ پھر آخری پیغمبر رسول اللہ ﷺ عرب میں نازل ہوئے اس وقت تک انسانیت ترقی کر کے اس مقام تک پہنچ چکی تھی کہ وہ اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچا سکتی تھی اس لیے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے کر پیغمبر بھیجنے کا سلسلے بند کر دیا ۔ اور اس پیغمبر کے ذمہ اس پیغام کا ابلاغ کا ذمہ لگایا اور آخری رسول ﷺ نے آخری حج الوداع کے موقع  پر اس کی گواہی سارے لوگوں سے لی اور سب نے کہا پہنچا دیا ۔ پھر اس کے بعد یہ تصوف والے دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی کو خاص علم دیا گیا جو باقی صحابہ کو نہیں دیا گیا تو پھر پیغمبر نے  پیغام کا ابلاغ کی ذمہ داری کیسے پوری کر دی ؟ یعنی وہ نامکمل ہے جسے یہ بعد کے بزرگ مکمل کر رہے ہیں ۔ اگر یہ اسے مکمل کر رہے ہیں تو پھر مکمل کیوں نہیں ہوتا تقسیم در تقسیم ہو کر بھی مطمئن نہیں ہوتا اور ہر ایک گروہ کا دعویٰ یہی ہے کہ اس نے سچ پا لیا پھر دوسرے گروہ اس کے نزدیک قابل قتل ٹھہرتے ہیں ۔

یہ دین جسے دین فطرت کہا گیا کیوں ہم مسلمان اسے آسان اور فطرت کے قریباً رکھنے پر راضی نہیں ۔ ضرور کوئی عجیب فلسفہ ہی اس میں داخل کرنا ہے کہ ہم اللہ کی بڑی مشکل سے عبادت کر رہے ہیں ۔ ابھی تو میری بیوی ماریا نے صرف مسجد دیکھی تھی جہاں رب کی عبادت کےلیے سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر ایک امام کے پیچھے اس کے سامنے جھک کر عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کسی دن ان بزرگوں کے مقبرے سامنے آئے تو وضاحت کیسے کروں گا کہ یہ کیا ہے اور لوگ اسے کیوں مقدس مانتے ہیں ۔ میری بیوی ماریا کے پاس سابقہ روایت میں تاؤ ازم کے مندروں میں رکھے مجسموں اور ان پیروں کی درگاہوں میں کیا فرق ہے ۔ پیر تو اس کے بھی بہت پہنچ والے اور کرامتوں والے تھے لیکن آج جدید سائنسی دور میں تاؤ ازم کے ان بزرگوں کی کرامتوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ہمارے پیروں کی کرامتیں بھی جام ہو گئیں ۔ مندر ان پیروں کے بھی اونچی مشکل جگہوں پر ہوتے ہیں اور درگاہیں یہ بھی ویرانوں میں مشکل سے رسائی والی جگہوں پر ۔ ویسے کہیں پیر سارے ہی ایک جیسے تو نہیں ہوتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply