ایک خوبصورت سفر نامہ
جوانی میں سفر ایک خواب ہوتا ہے ۔ آدمی سوچتا ہے اسے چڑیا کے پر لگ جائیں اور وہ پوری دنیا اڑتا پھرے ۔ جھیل ڈل سے تاج محل اور کوہ کاف سے ایفل ٹاور ۔ دبئی ،امریکہ، انگلینڈ اور ماسکو بھی ہمارے خوابوں کا محور رہا ۔ مگر جب پر لگے تو پتہ چلا ،اڑنے کی معصوم خواہش تو کب کی دم توڑ چکی ۔ 25سال عرب امارات میں 25دنوں کی طرح گزر گئے ۔ کہیں اور جانے کو دل مانا ہی نہیں ۔ چھٹی ملتی تو ماں کی منتظر آنکھوں کے سامنے پوری دنیا اور اس کی رعنائیاں ہیچ سی لگتیں ۔ اب وہ آنکھیں جب بجھ گئیں تو یہ بھید کھلا ، زندگی ایک سفر ہے ۔ خیالوں اور خوابوں ، عقیدوں اور عقیدتوں کے ایک شہر سے دوسرے شہر تک ۔ اسی سفر میں دنیا آباد ہو گئی ۔ غاروں سے گھروں تک ،گاؤں سے شہروں تک اور قدیم سے جدید تہذیبوں تک ۔ انسان نے زندگی کے اس مختصر سے سفر میں کیا کچھ نہیں کیا ۔ یہی سب کچھ دیکھنے کی خواہش کچھ لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ اسی بے چینی نے دنیا کو دنیا سے متعارف کروایا ہے ۔ کولمبس ہو ، مارکوپولو ہو ،ابن بطوطہ ہو یا آج کے دور میں ہوا کے دوش پہ اڑنے والا اور معلومات کی فراوانی اور دیگر سہولیات سے مستفید ہونے والا سیاح ،سبھی نے اپنی استعداد اور عزائم کے بقدر دنیا کو دیکھا اور اسے بیان کیا ہے ۔ سفر کے اسی بیان یا روداد نے سفرنامہ کی شکل میں دنیائے ادب میں خاص اور تاریخ میں اہم مقام حاصل کیا ۔
دنیائے ادب میں سفرنامہ کو ایک مستقل صنف کا درجہ دلانے میں اہل قلم نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ایک روایت کی شکل اختیا کر گیا ہے ۔ یہ روایت اس صنف کی خوبصورتی میں جہاں روز بروز اضافہ کا باعث بن رہی ہے وہاں ہم جیسوں کے لیے سیکھنے کا سامان بھی مہیا کر رہی ہے ۔
سفر نامہ نگاری بظاہر آسان کام ہے ۔ لیکن دراصل یہ فن دیکھنے میں جتنا آسان نظر آتا ہے تخلیق میں اتنا ہی مشکل ہے ۔ دیگر اصناف کی طرح اس میں توازن ، اختصار اور قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنا پڑتا ہے ۔ اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جس نے ایک عمر علم کی جستجو میں پڑھتے لکھتے گنوا دی ہو ۔ ڈاکٹر مرحب قاسمی صاحبہ نے پڑھا اور لکھا ہی نہیں پڑھایا بھی ہے ۔ شاید پڑھانے کی اسی ریاضت نے ان کی تخلیقات میں سادگی، روانی اور آسانی کو پانی کی طرح بہا دیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ جامشورو یونیورسٹی میں معاشیات کی پروفیسر اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ رہیں ۔ درس و تدریس اور ایڈمنسٹریشن کی گو ناگوں مصروفیات کے دوران بھی لکھنے لکھانے اور سیر و تفریح کے لیے وقت نکالتی رہیں ۔ درجن بھر سے زاید کتابیں لکھیں اور ہنوز یہ سفر جاری و ساری ہے ۔ ان کی تخلیقات میں ناول، افسانہ،شاعری، خاکے، مضامین،تحقیقی مقالہ جات کے علاوہ تراجم اور نصابی کتب شامل ہیں ۔ جبکہ ’’ہیلو ترکیہ ہائے امریکہ‘‘ ان کا پہلا سفرنامہ ہے ۔ ان کا دوسرا سفرنامہ ’’قطار میں ایک شخص اور‘‘ زیر طبع ہے ۔
ان کی زمبیل میں کئی ایک ملکوں کے سفرہیں ۔ دیکھیے وہ اپنے قارئین کے لیے کن کن اسفار کا انتخاب کرتی ہیں ۔
سفر نامہ میں ان کا پہلا انتخاب ترکی اور امریکہ کے سفر ہےں ۔ برطانیہ اور روس ابھی باقی ہیں ۔ خلافت عثمانیہ نے ایک مدت تک عالمی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ ٹی وی سیریل الطغرل کے بعد ترکی اجنبی نہیں رہا ۔ بلکہ پاکستان میں جس انداز سے اسے اور دیگر ترک ڈراموں کو پیش کیا گیا اس نے پاکستانیوں ، بلکہ بر صغیر کے اردو اسپیکنگ مسلمانوں کو جہاں تاریخ سے روشناس کروایا وہاں ان کے دلوں میں ایک نئی روح بھی پھونک دی ۔ لیکن افسوس کہ اس روح کو ابھی تک وہ جسم نہیں ملاجس میں سرایت کر کہ یہ پاکستان کی نئی نسل کو واضح سمت اور عہد حاضر کے تقاضوں سے آگاہ کر سکتی ۔ اس لیے یہ رو ح بھٹک رہی ہے ۔ ترکی نے خلافت عثمانیہ کے بطن سے مغربی اقوام کے سیزیرین کے بعد جنم لیا اور پھر یورپ کے ہمسائے میں پروان چڑھا ۔ پاکستان کی پیدائش بھی اسی طرح ہوئی ۔ لیکن نتیجے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
ترکی کا سفر آدمی کو خلافت عثمانیہ کی عظمت رفتہ سے بھی آگاہ کرتا ہے اور جدید ترکی قوم اور معاشرے کے مطالعے کا موقع بھی مہیا کرتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ترقی پسند
مگر سکّہ بند مسلم دانشور ہیں ۔ مسلم امہ اورپاکستان کا غم ان کے گٹھنوں میں اتر چکا ہے ۔ دُکھتے جوڑوں کے ساتھ ترکی کے سفر میں ان کے غم کا مداوا بھی ہوا ہو گا اور راحت دل و جاں کا سبب بھی بنا ہوگا ۔ مکمل غیر جانب دار رہتے ہوئے انہوں نے جس کا اظہارقسطنطنیہ کی فتح والی حدیث مبارکہ کو بیان کرنے کے بعد یوں کیا ہے:
’’سلطان محمد نے قسطنطنیہ فتح کر کہ اسلام کی نامور شخصیات میں ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت حاصل کر لی ۔ اس شہر کی فتح کے بعد زمانے نے دیکھا کہ بازنطینی سلطنت کے ہزار سالہ تکبر اور غرور کے بت اوندھے ہو گئے ۔ اور قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے حضرت ابو ذر;230;کے مقبرے پہ ہلالی پرچم کا سایہ ہے ۔ قسطنطنیہ کی فتح جسے یورپ آج تک نہیں بھولا، وہی قسطنطنیہ آج کا استنبول ہے ۔ جس کی سیر کو ہم نکلے ہیں ‘‘ ۔
ایک جگہ پر لکھتی ہیں :
’’تین پاسے سمندر اور اک طرف شہر انطالیہ۔۔۔ہمارے ذہن میں صدیوں پہ محیط فلم چل رہی تھی ۔ کبھی یونانی، کبھی ایرانی، پرتگیز تو کبھی رومن امپائر کے حملے، کاسٹیوم، آلات حرب و ضرب، کبھی فتوحات ، کبھی شکست۔۔۔انطالیہ کے اس سمندری حصے نے کیا کیا نہ جھیلا ہو گا ۔ بڑے بڑے جنگی جہازوں نے کیا اودھم نہ مچایا ہوگا ۔ یہ گہرا نیلا پانی لہو میں لال ہو گیا ہو گا ۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ان فاتحین نے اس علاقے کے تینوں اطراف میں زمین پر بہت ترقیاتی کام کئے ۔ اب یہ علاقہ تجارتی و تفریحی گڑھ ہے ۔ پرانا انطالیہ بھی اپنی تہذیب، ثقافت ،تجارت اور ساحلوں کی بنیاد پر مشہور تھا اور آج کا یہ شہر تو سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہے‘‘ ۔
اسی طرح کے مشاہدات میں تاریخ اور دیگر موضوعات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانے کے باوجود ڈاکٹر صاحبہ نے سفر نامہ کو سفرنامہ ہی رہنے دیا ہے ۔ اور یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے ۔ ورنہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سفرنامہ کم تاریخ، جغرافیہ اور معاشرتی علوم زیادہ ہوتا ہے ۔ (ایسے اسفار جن میں جغرافیے اور تاریخ وغیرہ کو تفصیل سے بیان کرنے کا جواز ملتا ہے ، ان کی نوعیت مختلف ہے ۔ وہ عہد قدیم کے اسفار ہیں جب ذراءع آمد ورفت جانوروں یا سمندری جہازوں وغیرہ تک محدود تھے اور مہینوں پر محیط ہوتے تھے) ۔ یہی مقام توازن کا متقاضی ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے سفر میں گردو نواح پر پڑتی اچٹتی نگاہ کو ہی بیان کیا ہے ۔ وہ کسی بھی مقام پر مراقبے میں گئی ہیں نہ لمبے قیام اور رکوع و سجود میں ۔ سفر میں قصر ہی سفرنامے کا حسن ہے ۔ اور اس حسن کو انہوں نے چر چاند لگائے ہیں ۔
کبیر صاحب کی رفاقت میں انہوں نے اپنی حس ظرافت کو بھی ٹٹولا ہے اور طنز و مزاح کو بھی مناسب جگہ دی ہے ۔ لکھتی ہیں :
’’ باہر نکلے تو دیکھا کہ شیشے کے دروازے کے ساتھ ہی کافی اونچی دو عدد میزیں اور اسی قد و قامت کی کرسیاں رکھی تھیں ۔ ہم جتنی مشکل سے اس کرسی پر بیٹھے اس سے بخوبی اندازہ ہو گیاکہ جو لوگ دیگر ذراءع اور دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہیں انہیں اترنے میں تامل کیوں ہوتا ہے ۔ ۔۔۔ہم اگرچہ بلندی پہ تھوڑی دیر ہی تشریف فرما رہے لیکن بقول کبیر ’’چس آگئی‘‘ ۔
لیکن سچ پوچھیے تو ہ میں کوئی زیادہ ’’چس‘‘ نہیں آئی ۔ سکول میں اردو کے ماسٹر جی کے سامنے کھڑے ہو کر جب مشکل الفاظ بھوت کی شکل اختیار کر لیتے تو پھرکتاب زمین پر رکھ کرمرغا بن کہ پڑھنا پڑتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو پڑھنے میں ہ میں کبھی مار نہیں پڑی ۔ لیکن جب کبیر صاحب کو پڑھنا شروع کیا تو اول اول مرغا بننے میں بڑی جھجک ہوئی ۔ وہ بھی بنے، مگر کام نہ بنا ۔ ایک خاکہ پڑھنے کے لیے بیسیوں بار الٹا لٹکنا پڑتاہے(فقرہ ہی ایسا ہوتا ہے) ۔ تب جا کر بات سمجھ میں آتی ہے ۔ کیا;224238; کہ دراصل جو ہم سمجھے ہیں ، وہ اصل کی بات نہیں ۔
سو ایک ایسی کتاب ، جس میں مرغا بننا پڑے نہ الٹا لٹکنا پڑے ، سمجھ کا ہاضمہ خراب ہو، قبض ہو نہ مروڑ اٹھیں ، ایک ’’ان منہ تہوتے‘‘ آدمی کو کیا مزہ دے گی ۔ ڈاکٹر صاحبہ استاد رہیں ،شاید اس لیے حد درجہ شفیق ہیں ۔ ان کے فقروں میں ریشم کی نرمی ہے، پھولوں کی خوشبو ہے ، لپ اسٹک کا رنگ ہے اورملائی کا مزہ ہے ۔ سیدھا سادہ فقرہ، سیدھی سادی بات، ہلکا پھلکا مزاح اور روئی کے گالوں جیسی طنز ۔ ایسی باتوں پر کون کان دھرتا ہے ۔ ہ میں تو وہ لات چاہیے جو گول کیپر فٹ بال کو مارتا ہے ۔ کبیر خان پیشے کے اعتبار سے سپاہی ہیں ۔ ان کی لات پڑنے پر کم از کم ہفتہ بھر تو تشریف مبارکہ تشریف رکھنے کے قابل نہیں رہتی ۔ آدمی سہلانے کی غرض سے ہاتھ رکھے تو جل جائے ۔ قیام میں رہیے یا پہلو کے بل ۔ دو ہی چوائس رہ جاتے ہیں ۔ لیکن زیادہ فکرمندی کی ضرورت نہیں ۔ سُنّ ہوجانے والی ’تشریفوں پرایسی لاتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
کتاب کا نام ملاحظہ کیجیے ’’ہیلو ترکیہ ہائے امریکہ‘‘ ۔ ہماری ماڈرن جنریشن کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ وہ اسے پڑھیں نہ پڑھیں الماری میں ضرور رکھیں گے ۔ کتابوں کو شو پیس کے طور الماریوں میں سجائے رکھنا بھی ایک فیشن ہے ۔ لیکن اس سفر نامہ کی بات ذرا مختلف ہے ۔ خوبصورت اور تاریخی ملکوں کا سفرہے جس میں ان کی تاریخ اور خوبصورتی اعلیٰ ادبی پیرائے اوربہترین اسلوب میں لکھی ملتی ہے ۔ ہر طرح کا ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے اس میں دلچسپی کا ساماں موجود ہے ۔ کتاب پڑھنے کے بعد دل کرتا ہے الماری میں رکھنے کی بجائے بغل میں دبا کر کم ازکم ترکی کے سفر پر تو نکلا ہی جائے ۔
ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہیں :
’’ہم تو صرف صدیوں پرانی ان تہذیب یافتہ اقوام کے نقوش دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔ ۔۔۔یہ 8قبل مسیح ہے جہاں ;71;reeksکی حکمرانی ہے ۔ 5قبل مسیح میں ایرانیوں کی ۔ اس کے بعد مشہور عالم سکندر اعظم کا دور آتا ہے جو 4قبل مسیح ہے ۔ اس کے بعد دو صدیوں میں ہ میں جو فاتحین نظر آتے ہیں انہیں تاریخ ;80;ergamonکے نام سے جانتی ہے ۔ پہلی سے تیرہویں صدی عیسوی تک اس خطے پر رومیوں کا طوطی بولتا رہا ۔ تیرہویں صدی سے تاحال یہاں پر ترکوں کی حکومت ہے‘‘ ۔
’’جب ہم نے ’’قونیہ‘‘ جانے کا قصد کیا تو ہمارے علم میں آیا کہ علامہ اقبال کی علامتی قبر رومی کے قدموں میں بھی ہے ۔ ۔۔۔پہلی چیزوہ پوسٹر تھا جس پر ’’میولانا تورسٹک کارسیسی ‘‘لکھا تھا اور رومی سے منسوب ’’رقص درویشاں ‘‘ کی تصویر تھی ۔ ۔۔۔جلال الدین رومی کی قبر انتہائی خوبصورت اور پروقارلگ رہی تھی ۔ جس پہ مخصوص ہرا عمامہ اور خاکی لمبوتری ٹوپی بھی نظر آرہی تھی ۔ یہ مخصوص انداز کی ٹوپی اورعمامہ صرف ان سے اور ان کے درویشوں سے منسوب ہے‘‘ ۔
اس کے علاوہ مسجد آیا صوفیہ سمیت ترکی کے تمام تاریخی مقامات کا آنکھو ں دیکھا حال جس خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ کم ہی دستیاب ہے ۔
کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر صاحبہ نے امریکہ کے تین اسفارکے مختصر احوال لکھے ہیں ۔ امریکہ بہت بڑا ملک ہے اسے پورا دیکھنا ممکن نہیں ۔ اس لیے ڈاکٹر صاحبہ نے منتخب سندھی افسانوں کے ترجمہ پر مشتمل اپنی تصنیف ’’لیر لیر دامن ‘‘ کی طرح امریکہ کی معروف جگہوں کا انتخاب کیا ہے ۔ کتاب کے اس حصے پر ایک طرف جہاں ناول کا رنگ نمایا ں ہے تو دوسری طرف پاکستان کے حالات کا دکھ بھی کھل کر سامنے آیا ہے ۔ لاس ویگاس میں قیام کے موقع پر لکھتی ہیں :
’’ہم لاس ویگس کے نام کے ساتھ’ ڈیزرٹ‘ نتھی دیکھ کر اسے اپنا ’تھر‘ سمجھ بیٹھے تھے ۔ لیکن دور پرے سوائے ریت کے کسی اور چیز میں مماثلت نطر نہیں آئی ۔ نا ہی بوسیدہ جھونپڑے، ناں ننگ تڑنگ ریت میں رُلتے بچے، جہاں ہر گھر میں عُسرت برستی نظر آتی ہے ۔ وہاں اگر امارت اور کشش ہے تو وہ سندھی ثقافت و کلچر اور تہذیب کی ہے ۔ لیکن یہ وہ بے سوادی کشش ہے جو برسوں سے مقامی لوگوں کی غربت و افلاس ، بودوباش اور تعلیم پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہ کر پائی‘‘ ۔
قارئین کرام ، یہی مثال ہماری بھی ہے ۔ پڑھائی لکھائی کے میدان میں ہم مفلس کی وہ قبا ہیں جسے دیکھ کر اپنی کم مائیگی کا احساس روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ پڑھتے لکھتے لوگوں کی صحبت بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ البتہ کئی ایک کتابوں کا تعارف لکھتے لکھتے ہم نے ان کی شکل ضرور بگاڑ ی ہے ۔ گو ہمارا اس کہانی کا مقصد فقط اتنا بیان کرنا تھا کہ جو لوگ پڑھنا جانتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں یہ کتاب ان کے لیے بھی ہے اور ان کے لیے بھی جنہیں کتاب دیکھ کر بخار آجاتا ہے ۔
اللہ کرے ڈاکٹر صاحبہ کے فرصت کے رات دن ایسے ہی گزریں جیسے گزر رہے ہیں ۔ کبھی انہیں تصور جاناں کے جاں گسل مرحلے سے نہ گزرنا پڑے ۔ تاکہ ہ میں ان کی اچھی اچھی تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں