مسحور کن آنکھوں والی، نِمّی۔۔ذوالفقار علی زلفی

مایہ ناز ہدایت کار و اداکار راج کپور کی فلم “برسات” ہندی سینما کی ناقابلِ فراموش فلموں میں سے ایک ہےـ اس فلم نے ہندی سینما کو پانچ انمول فن کاروں سے نوازاـ نامور موسیقار جوڑی شنکر اور جے کشن، شیلیندر اور حسرت جے پوری جیسے شعرا اور ساحرانہ آنکھوں کی مالکہ “نِمّی”ـ نمی جو اس فلم سے پہلے مختلف اسٹوڈیوز کے چکر لگاتی ایک عام سے لڑکی تھیـ آگرہ کی عام سی لڑکی “نواب بیگم”ـ

نوخیز نواب بیگم کو نِمّی کا لازوال نام راج کپور نے ہی دیا مگر وہ ان کی دریافت نہیں تھی ـ یہ ہندوستان کے عظیم ہدایت کار محبوب خان تھے جنھوں نے نواب بیگم کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انھیں اپنی آنے والی فلم “آن” میں کردار دینے کا وعدہ کیاـ محبوب خان اس وقت فلم “انداز” بنا رہے تھےـ نواب بیگم کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مختلف پوز میں چند تصویریں بنا لیں تاکہ فلمساز انھیں دیکھ کر جلد کسی نتیجے پر پہنچ سکیںـ نواب بیگم نے یہی کیا مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ـ

1933 کو آگرہ میں پیدا ہونے والی نواب بیگم قریب نو سال کی عمر میں ہی اپنے والدین سے محروم ہو گئیںـ ان کی غریب دادی نے انھیں بڑی مشکل سے پالاـ مفلسی اور تنگ دستی سے لڑنے والی نواب بیگم کے عزم جواں تھےـ انھوں نے کمسنی میں ہی فلم نگری میں جانے کا فیصلہ کر لیاـ جواں ہوتے ہی وہ دادی کا ہاتھ پکڑ کر ممبئی پہنچیںـ گرتے پڑتے محبوب اسٹوڈیو کے دروازے تک آ گئیںـ سوچا اب کام بن جائے گا مگر فلمی دنیا میں داخلہ اتنا آسان نہ تھاـ

محبوب خان نے ان کی تصاویر بنائیں اور انھیں دیگر فلم سازوں سے ملنے کا مشورہ دیاـ وہ مختلف اسٹوڈیوز کا چکر لگاتی رہیںـ مہینوں گزر گئےـ ہمت جواب دے گئی، خواب بکھر گئے اور مایوسی نے ان پر حملہ کر کے انھیں پلٹنے پر مجبور کر دیاـ

مایوس نواب بیگم آگرہ لوٹنے سے پہلے محبوب خان سے الوداعی ملاقات کرنے گئیںـ اسٹوڈیو میں محبوب خان نہ تھے ـ راج کپور کسی کام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھےـ راج کپور ان کی ساحرانہ آنکھیں دیکھ کر مبہوت رہ گئےـ محبوب خان کے آتے آتے راج کپور من ہی من میں فیصلہ کر چکے تھےـ انھوں نے نواب بیگم کو اپنی فلم “برسات” میں کام کرنے کی آفر دی ـ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ـ نواب بیگم مان گئیں ـ

راج کپور نے انھیں “نِمّی” کا فلمی نام دے کر شوٹنگ شروع کر دی ـ کیمرے کے سامنے اچھے بھلے فن کاروں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں یہ تو ایک عام سی غریب لڑکی تھی ـ کیمرے کے سامنے پریم ناتھ سے اظہارِ عشق کرنا ان کے لیے مشکل ثابت ہو رہا تھاـ راج کپور نے سر پر ہاتھ رکھ کر ایک بڑے بھائی کی طرح ان کا حوصلہ بڑھایا، انھیں اعتماد دیا ـ بھائی بہن کے رشتے میں بندھ جانے کے بعد نمی کے حوصلے ناقابلِ شکست ہو گئےـ 1949 کو “برسات” ریلیز ہوئی ـ راج کپور، نرگس اور پریم ناتھ جیسے منجھے ہوئے فنکاروں کے درمیان نمی نے اپنی جگہ بنا لی ـ

“برسات” میں نمی پر پکچرائز گانوں:

“جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے، آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے”

اور…

“برسات میں ہم سے ملے تم ، سجن تم سے ملے ہم ، برسات میں”

نے دھوم مچا دی ـ نمی یکایک نرگس، مدھوبالا، مینا کماری اور نوتن کی صف میں کھڑی ہو گئیں ـ نواب بیگم اب معروف اداکارہ نمی کے قالب میں ڈھل چکی تھیںـ

ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار کے ساتھ ان کی فلموں “دیدار”، “داغ” اور “امر” نے ثابت کر دیا کہ آنکھوں سے مکالمے بولنے کی جو صلاحیت نمی میں ہے وہ کسی اور میں نہیں ـ “آن” میں محبوب خان نے اوائل میں ان کا اسکرین ٹائم کم رکھاـ وہ فلم کے درمیان میں ہی مر جاتی ہیں لیکن نمی کی بڑھتی شہرت نے محبوب خان کو مجبور کر دیاـ انھوں نے ڈریم سیکوینس ڈال کر ان کا کردار بڑھا دیاـ دلیپ کمار کے ساتھ ان کی “اڑن کھٹولا” بھی قابلِ داد ہے لیکن جس فن کا مظاہرہ “دیدار”، “داغ” اور بالخصوص “امر” میں ملتا ہے، وہ “اڑن کھٹولا” میں نسبتاً کمزور ہےـ

دیوآنند کے ساتھ “سزا” اور “آندھیاں” میں بھی انھوں نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیاـ بالخصوص “سزا” میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہےـ “بسنت بہار” بھی ان کی ایک ایسی فلم ہے جس میں انھوں نے فن کا خوب صورت مظاہرہ کیاـ

نمی نے اپنے کیریئر میں ایک سے ایک فلمیں دی ہیںـ ان کی آنکھوں کی ساحرانہ کشش جہاں بے مثال رہی وہاں انھوں نے اپنی آنکھوں کا بھرپور فن کارانہ مظاہرہ بھی کیاـ گو کہ نمی کو اپنے ہم عصروں جیسے نرگس، مدھو بالا، گیتا بالی، نوتن اور مینا کماری کی صف میں شمار کرنا شاید مبالغہ ہو لیکن یہ بھی درست ہے انھوں نے ان لیجنڈز کے درمیان اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ـ

1963 کی فلم “میرے محبوب” کو ان کی آخری پرفارمنس سمجھا جاتا ہے ـ اس فلم میں انھوں نے دیوقامت اشوک کمار کے مقابل اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیاـ البتہ تکنیکی طور پر ان کی آخری فلم “لو اینڈ گاڈ” ہےـ

“لو اینڈ گاڈ” سے نمی نے اپنی تمام امیدیں وابستہ کر لی تھیںـ اس فلم کے ہدایت کار کے آصف تھے ـ وہ اس فلم کو “مغلِ اعظم” جیسی عظمت دینے کے خواہش مند تھےـ یہ فلم لیلیٰ اور مجنوں کی لازوال داستانِ عشق پر مبنی تھی ـ نمی نے اسے اپنے فن کا نچوڑ قرار دیاـ افسوس اس کی تکمیل کے دوران فلم کے ہیرو گرودت انتقال کر گئے ـ فلم کی شوٹنگ رک گئی ـ کے آصف نے بعد میں سنجیو کمار کو لے کر نئے سرے سے شوٹنگ شروع کر دی ـ فلم مگر پھر چلتے چلتے رک گئی ـ اب کے آصف ناگہانی موت کا شکار بن گئے ـ

سالوں بعد کے آصف کی بیوہ اور دلیپ کمار کی بہن اختر جہاں نے اسے مکمل کر کے 1986 کو ریلیز کر دیا ـ یہ ایک بکواس اور تھکا دینے والی فلم ثابت ہوئی ـ ویسے بھی کے آصف اور گرودت جیسے نابغوں کے بغیر اس کی یہ حالت طے شدہ تھی ـ یوں نمی نے ایک بکواس فلم کی صورت فلمی صنعت کو الوداع کہہ دیاـ اگر کے آصف اور گرودت کی زندگی میں یہ فلم بن جاتی تو عین ممکن تھا نمی جی کا نام بھی “مغلِ اعظم” کی مدھو بالا اور “مدر انڈیا” کی نرگس کی صف میں لکھا جاتاـ

نِمّی کی فنی زندگی پر دو قابل فن کاروں کے اثرات گہرے ہیںـ ایک محبوب خان اور دوسرے راج کپورـ راج کپور کے ساتھ ان کا بھائی بہن جیسا رشتہ تھاـ اس رشتے کی وجہ سے دونوں کبھی بھی ہیرو ہیروئن کے صورت یکجا نظر نہ آئےـ تاہم راج کپور نے ہمیشہ پسِ پردہ رہ کر ایک بڑے بھائی کی طرح ان کی رہنمائی کیـ نمی نے اپنے ان دونوں گاڈ فادرز کے اندازوں کو کبھی بھی غلط ثابت نہ ہونے دیاـ حتیٰ کہ 1961 کی فلم “شمع” میں سینئرترین اداکارہ ثریا کے سامنے بھی ان کا فن اپنے جوبن پر نظر آتا ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

ماضی کی یہ حسین ساحرہ و باکمال فن کارہ 25 مارچ 2020 کی شام طویل بیماری سے لڑتے لڑتے 88 سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گئیںـ ِنّمّی جی کا فن اور ان کی محنت ہمیشہ نئی نسل کے فن کاروں کو حوصلہ و توانائی فراہم کرتی رہے گی ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply