ایک بیوقوف عورت۔۔ڈاکٹر نور ظہیر

رئیسہ کو پارٹیوں میں جانا بالکل پسند نہیں اور گھریلو پارٹیوں سے اسے نفرت ہے۔ انجان جگہ، انجان لوگوں کے جمگھٹ میں تو ملتے ملاتے، موسم کی برائی یا تعریف کرتے، پلاسٹک پر ایک آدھ ایپالیٹیکل فقرے بازی کرنے میں ہی شام گزر جاتی ہے۔ لیکن گھریلو جماوڑے میں، جہاں زیادہ تر لوگ ایک دوسرے سے پہلے سے واقف ہوں، وہاں وقت گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور پھر، آج کل کی پارٹیاں؟ پینا زیادہ، کھانا کم؛ میوزک سسٹم ایسے زور سے گلا پھاڑتا ہوا ہوگا کہ کان پڑے کی آواز سنائی نہ دے۔ ایک بار اس نے پوچھا بھی تھا تو جواب ملا کہ سنگیت کا ’والیوم‘ اونچا ہو تو لوگوں کو بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ خاک! نہ اپنی بات کہی جائے نہ دوسروں کی بات سنی جائے، نہ گیت کے شبد سمجھ میں آئیں۔ اسی طرح کے تین چار گھنٹے کے مستقل شور و غل کو آج کل پارٹی کہتے ہیں۔
مگر کچھ ایسی پارٹیاں ہوتی ہیں جہاں مارے باندھے حاضری لگانی ہی پڑتی ہے۔ رئیسہ کی بھتیجی نے نیا فلیٹ خریدا تھا۔ مڈل کلاس علاقے سے ’رِچ کلاس‘ کالونی میں آگئی تھی، ’ہاؤس وارمنگ‘ اس کی واحد پھوپھی کے بغیر کیسے ہوتی؟

رکھ رکھاؤ کی حاضریوں میں رئیسہ ایک ڈرنک لے کر ایک کونے میں بیٹھ جایا کرتی ہے اور کسی ایسے مہمان کو پکڑ لیتی ہے جو اپنے اور اس کے، دونوں کے حصے کی باتیں کرلے اور مسلسل باتوں میں کچھ خاص کہے نہیں۔ آج بھی اس نے یہی کیا۔ چھوٹے سے قد کی، ذرا گول مٹول، شکل سے ہی بے وقوف لگنے والی عورت کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ گلابی، شیفون کی ساڑھی، گلابی سینڈل، گلابی بیگ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوں کی چوڑیاں، نیل پالش، لپسٹک یہاں تک کہ روما ل بھی — سب بالکل ایک رنگ۔ رئیسہ نے دل میں اس عورت کا نام ’سافٹی‘ رکھ دیا۔

اس نے رئیسہ کے بیٹھتے ہی بات شروع کردی — اپنے شوہر کے بارے میں۔ رئیسہ نے اطمینان کی سانس لی — چلو چھٹی ہوئی۔ ایسی عورتوں کو وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی۔ اب یہ دو ڈھائی گھنٹے میاں کے قصیدے گاکر کاٹ دے گی۔ رئیسہ آرام سے اپنی نئی کہانی پر دھیان دے سکے گی اور بس ’ہوں ہاں‘ کرکے ان کو الجھائے رکھے گی۔

”میرے میاں مجھ سے بہت بڑے نہیں ہیں۔ بس دو سال۔ اصل میں میری شادی بڑی دیر سے ہوئی ناں۔ میں تیس پار کرچکی تھی۔ دیکھنے میں اچھی نہیں ہوں نا۔“
رئیسہ کے بے احتیاطی سے کہے — ”نہیں، مجھے تو ایسا نہیں لگتا“ پر وہ کم عمر لڑکی کی طرح لجائی اور بولی — ”ویسی تو نہیں ہوں ناں  جیسی سب کو چاہیے ہوتی ہے — سلم، اسمارٹ، فیئر اینڈ بیوٹی فُل۔ آپ کہیں گی کہ فیئر تو ہو، لیکن زیادہ تر مردوں کو تو باقی تینوں چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں ناں۔ لیکن ان کو نہیں۔ اتنا پیار کرتے ہیں مجھے، اتنا کہ کیا کہوں۔ وہ دیکھیے ادھر ہی آرہے ہیں، میرے لیے ڈرنک لے کر۔“

رئیسہ نے اس کے اشارے کی طرف دیکھا۔ ایک اوسط قد کا گدبدا سا آدمی، ہاتھوں میں دو گلاس لیے چلا آرہا تھا۔ اس کے چہرے پر سکون کی ایک موٹی سی پرت جمی تھی، اتنی موٹی کہ اس کا اچھا بھلا ناک نقشہ اس میں دھنسا ہوا سا معلوم ہوتا تھا۔ ایک گلاس ’سافٹی‘ کی طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے نظر بھر کر رئیسہ کو دیکھا۔ رئیسہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اسے ناپ تول کر یہ طے کرنے کی کوشش کررہے ہوں کہ اس کے ساتھ کتنا وقت بتایا جاسکتا ہے۔ وہ بھی جواب میں انھیں ایک ٹک دیکھتی رہی، یہاں تک کہ انھوں نے ذرا حیران ہوکر نظریں پھیر لیں۔ رئیسہ دل دل میں مسکرائی۔ زیادہ تر مردوں کو عورت کے اس بیباکی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی عادت نہیں ہوتی۔ سافٹی نے اب میاں کے ساتھ ذرا ٹھنکنا شروع کردیا تھا — ”یہ کیا؟ آپ نے واڈکا تو ڈلوائی ہی نہیں۔ مزا تو دور اس میں تو مہک بھی نہیں ہے۔“
”اورینج جوس میں واڈکا جیسے عجیب کمب نیشن پیوگی تو واڈکا کا مزا کہاں سے آئے گا۔ کتنی بار کہا واڈکا ٹومیٹو جوس کے ساتھ پیتے ہیں۔“
”سچ بتائیے، آپ نے اس میں واڈکا نہیں ڈلوائی ہے ناں؟۔“ سافٹی نے ضد کرتے ہوئے پوچھا۔
”کل رات کو تمہارا پیٹ خراب تھا۔“
”دیکھا آپ نے!“ سافٹی نہال ہوتے ہوئے بولی — ”کتنا چاہتے ہیں مجھے؟“
ان جناب نے اپنی بیوی پر اکتائی ہوئی سی نظر ڈالی اور پھر رئیسہ سے بولے — ”آپ؟“
”ابھی تک ہمارا تعارف نہیں ہوا۔“ سافٹی نے ذرا کھسیا کر کہا — ”بغیر تعارف کے اتنا بتیا رہی تھیں!“ انھوں نے ذرا سا جھڑکا پھر ان کی آنکھوں میں پہچان کی ایک لہر سی آئی — ”آپ رئیسہ بانو ہیں ناں ، نامی مصنفہ؟“ پہچانے جانے پر رئیسہ نے سر ایک طرف جھکایا۔
”ارے تہمینہ اٹھو بھائی، ان سے تو مجھے بات کرنی چاہیے۔“ وہ بولے۔
تو ’سافٹی‘ کا نام تہمینہ تھا۔
”کیوں؟ آپ کو مجھ سے کیوں بات کرنی چاہیے؟“ رئیسہ نے خشک لہجے میں، بیوی کو کھڑا کرکے اس کی جگہ بیٹھتے ہوئے شوہر سے پوچھا۔
”کیونکہ میں ۔۔۔“ اس نے منچ پر ڈایئلاگ کا کیو تھمانے کے انداز میں ’سافٹی‘ کی طرف دیکھا جو مسلسل پھوٹ پڑی۔ ”یہ بھی مصنف ہیں نا۔ ان کی کہانیاں چھپتی رہتی ہیں۔ یہ تو اتنا لکھتے ہی نہیں جتنا لکھنا چاہیے۔ اگر لکھیں تو اچھے اچھے ادیبوں کو پیچھے چھوڑ دیں۔“ کہہ کر وہ سانس لینے کے لیے رُکیں۔ اس کے پورے ہاؤ بھاؤ میں ایک رٹا رٹایا سا بھاؤ تھا۔ ویسا نہیں جیسے کسی کو زبردستی کچھ رٹوایا گیا ہو، بلکہ ایسا جیسے کسی ناسمجھ بچے نے، بغیر کسی اتار چڑھاؤ یا جذبات کے ملاپ کے، سبق یاد کرڈالا ہو۔
”تہمینہ! شوہر کی اتنی تعریف اچھی نہیں۔“ وہ نرم انداز سے بولا۔
”بھئی، کوئی غلط تھوڑی کررہے ہیں۔ ہم تو ان سے اتنا کہتے ہیں کہ آپ ایک ناول لکھیے، آپ کی اصلی پرکھ تو ناول میں ہوگی۔ زبان، کہانی، کردار، سب کا جتنا اسکوپ ناول میں ہے، چھوٹی کہانیوں میں تھوڑے ہے۔ ویسے کہانیاں بہت لکھتے ہیں۔“
”آپ بھی اگر نام بتادیتے تو شاید میں پہچان لیتی۔“ رئیسہ نے ٹوکا، وہ پھر لجائے اور اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ فوراً بولی — ”ارے یہ کیسی چوک؟ یہ ابوبکر خاں ہیں۔ آپ نے ضرور ان کے افسانے پڑھے ہوں گے۔“
”کہاں تہمینہ، اتنی بڑی مصنفہ کے پاس دوسروں کو پڑھنے کا وقت کہاں ہوتا ہے؟“
”کوئی بات نہیں، اب تو ہم سے دوستی ہوگئی ہے، اب تو پڑھنا ہی پڑے گا۔ میں آپ کو ان کی کہانیوں کا مجموعہ بھجوادوں گی۔“
”اچھا آپ کا مجموعہ آچکا ہے؟“ رئیسہ نے ذرا حیرانی سے پوچھا۔
شوہر سے پہلے ’سافٹی‘ جواب دینے لگی — ”جی ہاں، جی ہاں، اسے آئے ہوئے دو تین سال ہوگئے۔ اب تو دوسرا آنے والا ہے۔“
”اچھا! کس نے چھاپا ہے؟“ رئیسہ کی حیرانی بڑھتی جارہی تھی۔ اتنی کہانیوں کے مصنف کو وہ پہچان نہیں پارہی تھی۔
”پبلشر کہاں ٹھیک سے چھاپتے ہیں۔ نہ پیسے دیتے ہیں، نہ ٹھیک سے ڈسٹریبیوٹ کرتے ہیں۔ پندرہ بیس کاپیاں تھمادیتے ہیں بس۔ تو ہم نے خود ہی چھاپی۔ جی ہاں، انھوں نے ہی کہا کہ صبا کے نام سے پبلشنگ ہاؤس کھول لیتے ہیں۔ صبا، ہماری بیٹی! یہاں آئی ہوئی ہے، ابھی آپ سے ملواتی ہوں۔“

وہ جانے ہی لگی تھی کہ ابوبکر نے انھیں روکتے ہوئے کہا — ”ارے آپ یہیں رُکیے میں بلا لاتا ہوں صبا کو۔“ اس کے جانے کے بعد وہ ایک  پل ویران نظروں سے اس کی جاتی ہوئی پیٹھ پر نظریں جمائے رہی پھر اچانک دہانہ پھاڑکر مسکرائی اور میاں کی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی — ”دیکھا، کتنا پیار کرتے ہیں مجھے۔ ذرا سی محنت نہیں کرنے دیتے۔“

”آپ دونوں میں اتنا تکلف کیوں ہے؟ جہاں اتنا پیار ہوتا ہے وہاں شوہر بیوی ایک دوسرے کو ’تم‘ کہتے ہیں۔
وہ ضرورت سے زیادہ زور سے ہنسی — ”یہ بات ہوئی تھی ان کے ساتھ۔ لیکن انھیں نہ تو شوہر کا نام لینا پسند ہے نہ ہی تم کہنا۔ بدلے میں یہ بھی تو مجھے آپ کہتے ہیں، دیکھا نہیں آپ نے؟“

رئیسہ کے جواب دینے سے پہلے وہ ایک ناٹی سی، موٹی سی، چشمہ لگائے لڑکی کو ساتھ لیے لوٹا۔ رئیسہ اس کے سلام کے جواب میں دعا دیتی ہوئی سافٹی سے بولی — ”آپ کی لڑکی کی شکل تو بالکل آپ پر گئی ہے۔“

صبا کچھ بدبداکر چلنے لگی تو ابوبکر نے اسے روکتے ہوئے کہا — ”اپنی امی کے ساتھ رہو صبا، میں ایک ڈرنک لے کر آتا ہوں۔ تہمینہ انھیں صبا کے بارے میں ضرور بتانا۔“

صبا کی آنکھوں میں غصہ اُتر آیا۔ تہمینہ اس کی طرف معافی مانگتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بیٹی کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی — ”یہ میری بیٹی نہیں ہے۔ یہ ان کی بہن کی بیٹی ہے۔ میرے تو بچے ہوئے ہی نہیں، بانجھ ہوں۔ سب تو ان کو دوسری شادی کے لیے منارہے تھے۔ مگر انھوں نے کہا اگر تہمینہ میں کوئی کمی ہے تو کیا ان کی بہنیں وہ کمی پورا نہیں کرسکتیں؟ تب ان کی چھوٹی بہن نے مجھ پر یہ احسان کیا۔ تین دن کی تھی جب میں اپنے پاس لے آئی۔ سب یہی کہتے ہیں کہ میری طرح ہے، لیکن یہ کہتے ہیں کہ سب کو سچ تو بتانا ہی چاہیے۔ کیا بتاؤں کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے۔“

وہ لوٹ آیا۔ اس کے چہرے پر اہنکار کا بھاؤ تھا جس کی وجہ سے خوداعتمادی کی پرت ذرا اور موٹی ہوچلی تھی، جیسے کہہ رہے ہوں — ”آپ نے میرے جیسا پیار پر قربانیاں دینے والا شوہر پہلے کبھی دیکھا ہے؟“

”کیا اب میں جاسکتی ہوں؟“ صبا نے چپی توڑی اور جواب ملے بنا ہی، اپنی عمر کے ایک لڑکے کی طرف مسکراتی ہوئی بڑھ گئی۔ رئیسہ نے اس کے جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا — ”میں بھی ذرا دوسرے لوگوں سے مل لوں۔“

”ہاں – ہاں ضرور۔ آپ سے تو سبھی ملنا چاہ رہے ہوں گے۔ آپ تھوڑی تہمینہ کی طرح ہیں کہ کسی کو جانتی نہ ہوں یا اپنے شوہر کے علاوہ کوئی اور بات نہ کرپائے۔“
تہمینہ کے گال پھر گلابی ہوگئے۔ چوری پکڑے جانے والے انداز میں بولی —

”بھئی ہمارے شوہر ہیں ہی ایسے کہ بس انہی  کی بات کرنے کو جی چاہتا ہے، کیا کریں۔“
اب تک بنا وجہ کے مسکراتے رہنے کی وجہ سے رئیسہ کے گالوں میں درد ہوگیا تھا۔ ہونٹوں میں اینٹھن ہورہی تھی۔ جلدی سے ان دونوں سے دوری بناکر وہ بالکونی کا پردہ ذرا سا ہٹاکر اس کی اوٹ میں ہوگئی اور اپنے گال سہلانے لگی۔

کباب کی خالی پلیٹ لیے ہوئے رئیسہ کی بھتیجی نکہت، تیزی سے کچن کی طرف جارہی تھی۔ کچھ اسے اکیلا کھڑا دیکھ کر اور کچھ ویٹر کے سامنے آجانے کی وجہ سے، وہ رئیسہ کے سامنے رُک گئی۔ ویٹر کو اور کباب لانے کو کہتے ہوئے پلیٹ اسے سونپی اور رئیسہ کے پاس کھڑی ہوگئی۔

”کیا بات ہے پھوپھی جان، آپ کچھ پریشان ہیں۔“ اس نے دھیرے سے پوچھا۔ شاید گال سہلانے کو اس نے آنسو پونچھنا سمجھا۔ رئیسہ کو ہنسی آئی تو ہونٹوں سے کانوں تک دوڑی ہوئی کھینچ پر اس نے منہ بچکایا اور بولی — ”اُف کیا مشکل ہے۔ لگتا ہے نقلی ہنسی کی پریکٹس جاتی رہی۔“

بھتیجی نوجوان بھی تھی، خوبصورت بھی اور ایک بڑے ایم این سی کے ریجنل ڈائریکٹر کی بیوی بھی۔ نقلی قہقہہ کھنکھناتی ہوئی بولی — ”آپ بھی پھوپھی جان، بڑا مذاق کرتی ہیں۔ اچھا آپ کی ملاقات ہوئی کچھ مہمانوں سے۔ آئیے میں ملواؤں ……“ وہ واپس کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔

رئیسہ نے اسے روکتے ہوئے کہا — ”بھئی تھوڑی دیر کے لیے مجھے بخشو۔ ذرا تو گالوں کو سستا لینے دو۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارا مصنفوں کے ساتھ بھی میل ملاپ ہے۔ یہ بتاؤ، وہ گلابی ساڑھی والی، وہ جو سر سے پاؤں تک گلابی بنی ہوئی ہے، وہ کیا چیز ہے؟“
”کون، وہ دلی یونیورسٹی کی پروفیسر؟“
”ارے نہیں بھئی! وہ ایک بیوقوف سی عورت، کسی گھٹیا کمپنی کا اسٹرابیری آئس کریم کون، وہ جن کے شوہر کہانیاں لکھتے ہیں۔“
”جی – جی، ابوبکر خاں۔ انہی  کی پتنی کی بات کررہی ہوں، تہمینہ خاں، وہی تو پروفیسر ہیں ڈی یو میں۔“
”نام تو شاید یہی بتایا تھا۔“ رئیسہ کا دل اب بھی سافٹی کو دیش کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر ماننے سے انکار کررہا تھا۔ ”ان کی ایک بیٹی بھی ہے ……“ اس نے بات کو پکّا کرلینا چاہا۔
”جی، جی، صبا نہ؟ موٹی سی، چھوٹی سی، چشمہ لگائے۔ گود لی ہوئی ہے۔“

اتنی ساری ایک جیسی باتیں دو لوگوں کے بارے میں تو ہونہیں سکتیں۔ رئیسہ نے ذرا حیرت سے کہا — ”ہاں شاید وہی ہوں گی۔ لیکن ایسا لگتا نہیں کہ اتنی پڑھی لکھی ہیں، پی ایچ ڈی ہوں گی ہی اپنے مضمون میں، ویسے کیا پڑھاتی ہیں؟“ اس کے دل کے ایک کونے میں اب بھی یہی شک اٹکا ہوا تھا کہ اگر وہ پروفیسر ہے، تو بھی، ایسا کچھ پڑھاتی ہوگی جو نہ تو کوئی پڑھانا چاہتا ہوگا، نہ ہی جسے پڑھانے میں زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ ”مائیکرو بائیولوجی۔ اور پی ایچ ڈی نہیں، یہ ڈی ایس سی ہے، لندن یونیورسٹی سے۔ دس بارہ تو ان کے انڈر پی ایچ ڈی ہیں۔ نامی پروفیسر ہیں۔“

رئیسہ کی وہ حالت ہورہی تھی جو اینٹی بمبارڈمنٹ سیل میں چھپے ہوئے کسی شخص کی برابر ہورہی بمباری کے دوران ہوتی ہے۔ پھوٹتے ہوئے بم اسے گھائل تو نہیں کررہے تھے لیکن ہر بم کے پھٹنے کا دھماکہ اور اس سے پیدا ہونے والی زلزلہ نما کمپن اس کے دل اور دماغ دونوں کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ اس کے سارے بنے بنائے، نپے تلے میزان کے دائرے گڑبڑ ا گئے تھے۔ اپنے آپ کو پُرسکون کرنے کی کوشش میں رئیسہ نے پوچھا — ”تو پھر یہ ایسی کیوں ہے؟ اس قدر کیوں اپنے میاں کی چمچہ گیری کرتی ہے، ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے، ان کے آگے پیچھے دُم ہلاتی پھرتی ہے۔ اپنی تو بات ہی نہیں کرتی۔ آخر یہ اتنی بیوقوفی کی باتیں کرکے کیوں اپنے بارے میں غلط نظریہ پیدا کرتی ہے؟“
”تاکہ زندہ رہ سکوں۔“
وہ کب پردے کے دوسری طرف آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ رئیسہ اور نکہت دونوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ کتنی باتیں سن لی تھیں اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ نکہت تو نکلی ہنسی ہنس کر — ’آپ لوگ باتیں کیجیے، میں ذرا دوسرے مہمانوں کو ۔۔۔“ کا بہانہ بناکر تیزی سے ہال میں چلی گئی۔ وہ رئیسہ کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی جو بڑے سالوں بعد کسی سے نظریں چُرا رہی تھی۔

”لڑکی کتنی بھی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو، کماتی بھی ہو، ماں باپ کی چھاتی پر رکھی ہوئی سِل کی طرح ہوتی ہے۔ ایک عمر کے بعد، کسی کے بھی پلّے باندھ کر چھٹکارا پانا باپ کا فرض ہوتا ہے۔ جب شادی ہوئی، میں پی ایچ ڈی ہوکر لیکچرر تھی۔ مجھے اپنے سبجیکٹ سے ۔۔بڑا گھسٹا پٹا لفظ۔۔ عشق ہے، پاگل پن کی حد تک عشق! ویسا جیسا کسی انسان سے ہونا ناممکن ہے۔ میں انگلینڈ جاکر کسی نامی لیبارٹری میں آگے کام کرنا چاہتی تھی۔ نامی سائنس جرنلس میں پیپر لکھنا چاہتی تھی، ڈیس ایس سی کرنا چاہتی تھی۔ ماں باپ شادی کیے بنا جانے نہیں دے رہے تھے۔ تیس سال کی ہونے کے باوجود ان کی اجازت کے بنا جا نہیں سکتی تھی۔ یہ سب کچھ نہیں ہوپاؤں گی، یہ تو ان سے پہلی ملاقات میں ہی سمجھ گئی تھی۔ وہی پردہ سا گرا تھا ان کی آنکھوں میں بھی جو پہلے کئی لڑکوں کے چہرے پر آگیا تھا۔ ان سے زیادہ پڑھی لکھی بیوی؟ ہمیشہ اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھے گی، زبان درازی کرے گی، اپنی ڈگریاں اور زیادہ تنخواہ کی ڈینگ مارے گی۔ لیکن اس بار ان کے انکار سے پہلے ہی میں نے اپنا جال بُننا شروع کردیا۔ ایک ان کہا سا اقرارنامہ۔ بس مجھے کام کرنے دیں باقی ہر بات ان کی، میرا کچھ نہیں۔ جب تک یہ سامنے ہوتے ہیں، صرف ان کی بات کرتی ہوں۔ ان کی عورت کی تعریف کے حساب سے خود کو ڈھال چکی ہوں۔ گہنے، کپڑے، میک اَپ سب ان کی پسند کا پہنتی ہوں۔ نئے نئے پکوان بنانا سیکھتی ہوں۔ ماں بننا سدا سے ایک جھنجھٹ ہی لگتا تھا پھر بھی جب نہیں بن پائی، تو کتنا بننا چاہتی ہوں یہ سب کو دکھاتی، مزاروں پر منتیں مانگتی، ان کی بہن کی بچی کو اپنا بنائے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مجھ سے، کمزور اور بنا ریڑھ ہونے کی وجہ سے نفرت کرتی ہے، سب کے سامنے ان کا، ایک بانجھ عورت پر احسان کا بکھان کرتی ہوں۔ جانتی ہوں ان کی کہانیاں اچھی نہیں ہوتیں پھر بھی ان کی کاپی بنواکر رسالوں میں بھیجتی ہوں، تعریف کرتی رہتی ہوں، رسالوں سے انکار کے جواب برباد کردیتی ہوں۔ جوائنٹ بینک اکاؤنٹ ہے، میری تنخواہ کہاں جاتی ہے کبھی حساب نہیں کرتی، ان کے ہر مذاق پر سب سے زیادہ زور سے ہنستی ہوں حالانکہ وہ مذاق میرے ہی اوپر ہوتا ہے۔ سب کچھ صرف اس لیے کہ جو سات آٹھ گھنٹے یونیورسٹی کی لیب میں ملتے ہیں ان میں تمنیہ ہوکر، بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرسکوں۔ ہر وقت کی کھٹ کھٹ سے بچ سکوں تاکہ ان چند گھنٹوں میں جی سکوں۔

شروع شروع میں یہ ایک چھلاوا سا لگتا تھا لیکن اب اس دوہری زندگی کی عادت ہوگئی ہے۔ کتنی منجھ گئی ہوں، یہ تو اسی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی دھوکہ کھاگئیں۔ کیا غلط کرتی ہوں؟ کیا بے ایمانی کرتی ہوں؟ کیا فریب کرتی ہوں؟“

Advertisements
julia rana solicitors london

کہتے ہیں — گہرے دھیان میں اگر اپنے اندر کے سچ کے آمنے سامنے آجاؤ تو دماغ کچھ پلوں کے لیے سنّ ہوکر خیالوں سے خالی ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی رئیسہ کی دل کی حالت تھی۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ان سنجیدہ، گہری، نشچھل سچی آنکھوں پر ایک دروازہ سا بند ہوگیا۔ ہونٹھ مسکراہٹ میں پھیل گئے اور بناوٹی سی آواز میں کہنے لگی — ”آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں اور رئیسہ آپا تو آپ کی ہی بات کررہے تھے، میں بتا رہی تھی انھیں کہ آپ کی کہانیاں اصلیت کے کتنی قریب ہوتی ہیں ۔ زندگی پر کتنی پینی نگاہ ہے آپ کی۔ کبھی بیٹھک رکھتے ہیں ناں ہمارے یہاں۔ ہمارے میاں کی کہانی انہی  کی زبانی سنئے تو آپ کو اور بھی مزا آئے گا۔ آپ کی بھی سنیں گے۔ میں حیدرآبادی بریانی بہت اچھی بناتی ہوں، میری ساس نے سکھائی ہے۔ کیا چلنے کا وقت ہوگیا؟ ہاں، کل سے یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے انٹرویو ہیں۔ دیکھا، میرا سارا شیڈول تو انھیں یاد رہتا ہے۔ ان کے بنا تو میرا ایک قدم بھی چل پانا مشکل ہے۔ کیسی اچھی پارٹی رہی۔ میں تو آنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ تو انھوں نے اصرار کیا۔ اچھا ہی کیا، ذرا جی بہل گیا ورنہ تو بس یونیورسٹی اور لیب، لیب اور یونیورسٹی۔ میرا بس چلے تو کل چھوڑ دوں، لیکن یہ کہتے ہیں تمہارے اتنا پڑھنے کا فائدہ کیا اگر گھر بیٹھنا ہے۔ ان کی کتاب میں بھجوادوں گی، گھر ضرور آئیے گا، انھیں بہت اچھا لگے گا۔ انھیں تو۔۔

Facebook Comments

نور ظہیر
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہیں ، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔نور ظہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیے، وہیں ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کیں ، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھتی آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کی قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں کام کرتی آرہی ہیں۔سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply