چاچا منصب

درجہ چہارم کے طالب علم تھے ہم ان دنوں، جب ہمارے ساتھ ایک حضرت امیر داد صاحب پڑھتے تھے- قضائے الہٰی سے ان کا گھرسکول کی دیواروں سے جڑا ہوا تھا -اکثر و بیشتر ہماری تشریفیں اساتذہ کی مار سے لال رہتی تھیں مگر چند ایک طلباء علم کے دیوانے ایسے تھے کہ ان کو ڈنڈا بعد میں پڑتا تھا اور ان کی منحوس چیخیں پہلے کمرہ جماعت کی چھت کو لرزا رہی ہوتی تھیں-اسکول کے ایک استاد جو ہمارے گاؤں سے ہی تعلق رکھتے تھے اور ان کا آبائی پیشہ مٹی کے برتن بنانے کا تھا اورسوائے ان کا بقیہ خاندان یہی کام کرتا تھا۔۔۔اول تو وہ امیر داد کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے یا دو چار عدد گزارشات سے کام چلا لیتے تھے پر ایک دن ان کی قسمت پھوٹی بلکہ ٹوٹ پھوٹ گئی کہ انہوں نے انتہائی نالائق امیر داد کی سیوا مولا بخش کے ذریعے کر دی اور امیر داد ِنیر بہاتا سکول سے گھر کو روانہ ہوا۔۔
اسی دوران چھٹی ہو گئی اور ہم انہی استاد محترم کے پیچھے پیچھے سکول کے دروازے سے نکلے اور تھوڑا فاصلہ طے کر پائے تھے کہ پیچھے سے چاچا منصب(امیر داد کے والد بزرگوار ) کی مغلظات و ملفوظات سے بھری تقریر ہمارے معصوم کانوں میں رس گھولنے لگی اور ہم نے توجہ دی تو دیکھا کہ چاچا منصب ایک عدد ترنگل (بھوسہ وغیرہ کو ادھر ادھر کرنے کو کام آنے والا ایک عدد لکڑی کا اوزار) اٹھائے استاد محترم کا پیچھا کر رہے ہیں اور بیچارے استاد جل تو جلال تو کا ورد کرتے شعیب اختر کی رفتار سے دوڑ رہے ہیں بس اتنا فرق تھا کہ شعیب کو پتا ہوتا تھا کہ فلاں جگہ پہنچ کر رک جانا ہے مگر استاد محترم کو ایسی کوئی خبر نہ تھی کہ یہ ٹرین کہاں پر روکنی ہے ۔اس دوران چاچے کی ترنگلانہ اسٹرائیک، ضرب عضب کی صورت استاد کی کمر پر پڑ چکی تھی اور اگلا وار ڈلیور کرنے کی تیاری پوری تھی چاچے کی ،مگر استاد محترم نے دگنی رفتار سے”دُڑکی” لگا دی-جو جملہ استاد کے گوش گزار بار بار کیا جا رہا تھا وہ یہ تھا کہ” کمہار ہو کے تے میرے پتر تے ہتھ چایا ای، میں تینوں گراں وچوں کڈھ ساں”۔۔۔
بات یہ ہے متِرو ۔۔۔۔کہ عوام ہو کے تسی میاں و خاندانِ میاں کولوں سوال کیویں کیتا؟؟ ۔۔۔ اے تہانوں ہن نئیں چھڈے گا۔۔۔اے تہانوں نئیں چھڈے گا بلکہ تہاڈی آل اولاد نوں وی نہیں چھڈے گا-بات یہ ہے کہ یہاں جوبھی کسی مسئلے پر بولتا ہے اگر وہ جائز بھی بولتا ہے تو یہاں ایک ٹولہ ایسا ہے جو فوراًٍ سے چاچا منصب بن جاتا ہے اور شتابی سے لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتاہے۔ ساتھ ساتھ اعلان کرتا جاتاہے کہ میں تمھیں یہاں جینے نہیں دوں گا ،کبھی کہتا ہےاسلام وچوں باہر کڈھ ساں کبھی کہتاہے ملک وچوں نکل جاؤ- ان فرزندان اسلام سے گزارش ہے کہ میرے بھائیو کچھ کام تو خدا کے کرنے واسطے چھوڑ دو، کوئی فیصلہ تو خدا پر چھوڑ دو ہر فیصلہ تم ہی کرو گے؟؟ جیو اور جینے دو!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply