ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

اندھا گونگا اور بہرا مر رہا ہوں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نطق بے آواز تھا پگھلا ہوا سیسہ مرے کانوں کو بہرا کر چکا تھا صرف میری کور آنکھیں ہی تھیں جوگونگی زباں میں بولتی تھیں جب بھی میں بے نور آنکھوں کو اٹھا کر بات کرتا مورتی سنتی، مگر خاموش←  مزید پڑھیے

وِش کنیا/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وِش کنیاـ بمعنی زہریلی لڑکی/قدیم ہندو لوک کہانیوں  اور کلاسیکی ہندو ادب میں اس روایت کا ذکر ملتا ہے کہ راجا  کے حکم سے زہریلی خوراک سے پرورش کی  ہوئی خوبصورت لڑکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے  یعنی حریف راجاؤں←  مزید پڑھیے

گاربیج آئی لینڈ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جزیرہ ،خس و خاشاک جب کُھلا، تو کُھلا کہ جیسے زیر ِ زمیں اک کباڑ خانہ ہو ہزار کونے تھے، کھدرے تھے، تنگ، تیرہ و تار شکستہ چیزوں کے انبار تھے تہ و بالا کچھ ایسی تیرگی تھی جس میں←  مزید پڑھیے

مرا انگوٹھا کہاں لگے گا؟-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مرا انگوٹھا کہاں لگے گا؟ میں ایک ناخواندہ شخص لایا گیا ہوں جکڑا ہوا سلاسل سے اُس عدالت میں ۔۔ جس کا قانون، ضابطہ، دھرم شاستر شرع و شریعت ۔۔ مرے لیے حرف معتبر ہے! مگر میں جاہل گنوار، اس←  مزید پڑھیے

صنف غزل کے بارے میں/ستیہ پال آنند

غزل ادبی قماش کی صنف ضرور ہے،لیکن من وعن ، سراپا کُل ادب نہیں ہے ۔ ہاں، کسی حد تک اس کے ڈانڈےا دب سے ضرور ملتے ہیں، لیکن دو تین صدیوں میں سوائے اس کے اور کچھ کام نہیں←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں(یسوع)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کچھ بودھی فرقوں کا یہ خیال تھا کہ گوتم بدھ اس جنم کے بعد آوا گون کی زنجیر سے آزاد نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد ان کا ایک اور جنم ہوا، جس میں وہ دار پر مصلوب کیے گئے۔۔۔یہ←  مزید پڑھیے

منظوم بُدھ کتھائیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شہر کی اک خوبصورت نرتکی نے خوبرو آنند کو باہوں میں بھر کر یہ کہا، “تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ یہ میری دولت و ثروت ،یہ جاہ و حشم،یہ اونچا محل اور سب بڑھ کر مَیں، تمہارے منتظر ہیں!←  مزید پڑھیے

غزل/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

قرنوں سے بڑے زود گذر ثانیے، رُک جا خود تک مجھے جانے میں ابھی وقت لگے گا تھم سی گئی تھیں نبضیں زمان و مکان کی اِک حادثہ ایسا بھی مرے ساتھ ہوا تھا نروان کا حصول ہو شاید تری←  مزید پڑھیے

پیری کی پونجی/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مت کہو از کار افتادہ ہوں میں مت کہو بالیدگی فرسودگی ہے مت کہو میرا زمانہ ڈھل چکا ہاں، اگر دورانیہ پیچھے کی جانب مُڑ چلے تو اس کے کندھوں کو جکڑ کر روک لو۔۔۔خود سے کہو۔۔میں جانتا ہوں یہ←  مزید پڑھیے

شیکسپیئر کی عشقیہ زندگی کے دو مخفی راز/ڈاکٹرستیہ پال آنند

شیکسپیئر شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی کا نام این ہیتھوے Anne Hathaway تھا اور سولہویں صدی کی آخری دہائی اور سترھویں صدی کی پہلی دہائی کے بیس برسوں میں تحریر کیے گئے اور گلوب تھیئٹر میں اسٹیج کئے گئے←  مزید پڑھیے

گھر کہاں ہے؟/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خواب سا تھا کوکھ میں محبوس ، نا مولود بچے کا، کہ جو دریائے خوں میں تیرنے، کچھ ڈوبنے کچھ ہاتھ پاؤں مار کر اُس پار اترنے کی تگ ودو میں اکیلا مبتلا ہے پار ا ترتے ہی خوشی سے←  مزید پڑھیے

“غالب” کمرہ ء جماعت میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک←  مزید پڑھیے

عدم قبولیت/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عجیب حادثہ ہوا علیل ماں جو ہسپتال میں پڑی کئی دنوں سے چھٹپٹا رہی تھی ایکاایک جیسے سوگئی توآسماں کی سمت دیکھ کر یتیم طفل چیخ چیخ اٹھے خدایا رحم کر ہماری کم سنی پہ رحم کر دعا نے پھڑپھڑائے←  مزید پڑھیے

دائرہ در دائرہ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عاقبت منزل ما وادی  خاموشاں است حالیہ غلغلہ د ر گنبد افلاک انداز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکیروں کے چکر میں محبوس اک د ائرہ ہے لکیریں بہت تیز رفتار سے گھومتی ہیں مدار اپنا لیکن نہیں بھولتیں اس سفر میں کہاں سے←  مزید پڑھیے

میرے جانے کے دن آ گئے/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میرے جانے کے دن آ گئے پوچھو، کیوں؟ پوچھو، کب؟ ہاں، کسی ایک شب جب اندھیرا نہ ہو ہاں ، کسی ایک دن جب سیہ دھوپ ہو میں چلا جاؤں گا اک ہیولےٰ سا، آبی بخارات سا میں چلا جاؤں←  مزید پڑھیے

گونگے صحرا میں /ڈاکٹر ستیہ پال آنند

  گونگے صحرا میں کئی جنموں سے بھٹکا ہوا تھا ایک اسوار۔۔ جو اَب بچ کے نکل آیا ہے ڈھونڈتی پھرتی ہیں اس کو یہ دو روحیں کب سے ایک کہتی ہے ، مرے پچھلے جنم میں تم نے مجھ←  مزید پڑھیے

سب و شتم ، اتہام کی نظمیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

1-اندر آنا منع ہے اپنے محل کے دروازے کے اوپر اس تختی کو لٹکا کر شاید تم یہ معمولی سی بات بھی بھول گئے ہو جھکّڑ، آندھی، طوفاں، بارش بھوکے ننگے لوگ، گداگر ڈاکو، چور ۔۔۔۔ آوارہ کُتے بالکل ناخواندہ←  مزید پڑھیے

توازن/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

متوازن تھے، احسن صورت خوش وضعی میں ایک برابر ہم بچپن سے کچھ کچھ کج مج، عدم توازن ہم نے خود ہی ڈھونڈھ لیا ادھواڑ عمر میں نستعلیق، کتابی صورت ۔۔اور اکمل کردار ہمارا شاید قائم رہ پاتے لیکن جانے←  مزید پڑھیے

بنی ٹھنی غزلوں کے جلو میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کم مایہ، مسکین، چیتھڑوں میں لپٹی وہ نظم فقط دس بارہ سطروں کی حامل تھی جب آئی غزلوں کی محفل میں تو جیسے جھجک گئی۔ پھر ڈرتی ڈرتی بیٹھ گئی اور دائیں بائیں دُزدیدہ نظروں سے دیکھا سجی دھجی تھیں،←  مزید پڑھیے

اس لمحے کے آگے پیچھے کچھ بھی نہیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہے ارتفاق یا اقران یا اخوان الزماں کہ جس میں حاضر و موجود بھی ہیں زنگ آلود رواں دواں کو بھی دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ منقضی ہے، فراموش کردہ، ما معنیٰ اگر یہی ہے ، “رواں”، “حالیہ” اے←  مزید پڑھیے