دائرہ در دائرہ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عاقبت منزل ما وادی  خاموشاں است
حالیہ غلغلہ د ر گنبد افلاک انداز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لکیروں کے چکر میں محبوس اک د ائرہ ہے
لکیریں بہت تیز رفتار سے گھومتی ہیں
مدار اپنا لیکن نہیں بھولتیں اس سفر میں
کہاں سے ہوا تھا شروع سفر دائرے کا؟
جو آغاز تھا، ابتدا تھی؟
کوئی مدعا تھا کہ ساری لکیریں
بہت تیز رفتار سے گھوم کر دائرہ اک بنا لیں؟

نہیں! کچھ نہیں! کوئی معنی نہیں
کوئی مقصد نہیں تھا۔۔۔۔

فقط دائرہ بن گیا تھاجو اپنی ہی دھن میں
لگاتار اک اندھی رفتار سے گھومتا جا رہا ہے

مگر قرۃالعین سا دائرے کے کہیں وسط میں
ایک باریک سا عید کا چاند ـ
اپنے تواتر سے تحریک لیتا ہوا
کچھ دنوں سے
مدار اپنا طے کر کے خود گھومنے لگ گیا ہے
نیا دائرہ اک ہویدا ہوا ہے

بڑے دائرے کی حدوں میں مقید
نیا دائرہ اپنی گولائی میں گھومتے گھومتے
تیز آندھی کی رفتار سے اپنا رقبہ بڑھاتے بڑھاتے
بڑے دائرے کی لکیروں کو چھونے لگا ہے

کبھی اس کی رفتار میں جذب ہوتا
کبھی اس سے ٹکرا کے حد بندیاں پار کرتا
پلٹتا، مگر پھر
کھڑکتےہوئے اک بگولے سا
باہر نکلنے کو اب چھٹپٹانے لگا ہے
بہت شور و غوغا ہے دو دائروں کے تصادم کا ۔۔۔۔
چنگاریاں اٹھ رہی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

کہو، میرے’’ مَیں‘‘ ـ کے بگولے
مرے ہوش کو
سر کے گنبد سے آزاد ہونے میں اب دیر کیا ہے؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply