صنف غزل کے بارے میں/ستیہ پال آنند

غزل ادبی قماش کی صنف ضرور ہے،لیکن من وعن ، سراپا کُل ادب نہیں ہے ۔ ہاں، کسی حد تک اس کے ڈانڈےا دب سے ضرور ملتے ہیں، لیکن دو تین صدیوں میں سوائے اس کے اور کچھ کام نہیں ہوا کہ ترجیع و تجنیس ہو، تکرار ہو، بکرات و مرات ہو، لا محدودیت کی حد تک موضوعات اور مضامین کی جگالی کی جائے۔ لا تحصیٰ اشعار صرف ایسے ہوں جن میں یہ کوشش کی جائے کہ وہی کچھ لکھا جائے جسے انگریزی میں یوں کہا گیا ہے۔

What oft was said but never so well expressed.
لیکن اب کیا کیا جائے۔ اگر میرؔ فرما گئے ہیں

؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے : پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ۔۔۔۔۔

اور یہ سوچے بغیر کہ میرؔ نے یہ شعر عطار کے لونڈے کے لبوں کے بارے میں کہا ہے یا واقعی ایک نازک اندام حسینہ کے بارے میں گوہر افشانی کی ہے ،
ہم ڈھیروں اشعار اسی مضمون اور اسی استعارے کو لے کر کہتے چلے جائیں ۔۔۔کہتے چلے جائیں۔۔۔اور کہتے چلے جائیں۔
مختصراً یہ بھی کہ چونکہ روایتی غزل گو شاعر قوافی کی فہرست بنا کر غزل کہنے کا عاد ی ہو چکا ہے، اسے یہ کام آسان لگتا ہے اور شاید محسوس ہوتا ہے کہ شاعری زندگی کی عمومیت سے بالا تر کچھ آفاقی قسم کی شئے ہے اور عام زندگی میں اس قسم کے موضوعات اور ان کے تحت مضامین کی کمی ہے، قلت ہے، (یقین مانئے، زندگی اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ مضامین کا آزقہ کہیں نہیں دکھائی دیتا، صرف نگہ ٔ بینا چاہیے) زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں واقعات، حادثات یا روزانہ کی مصروفیات کا قحط ہو؟ النادر ی،کالمعدوم کچھ بھی نہیں ہے ،اس میلے میں ہر طرف تعدد ہے، مضاعف، توفیر اور بہتات کے ڈھیر لگے ہیں۔ات گت اور بے نہایت سے البتہ اچھوتے، نو ایجاد، نو نیا ز آمدہ مضمون کا انتخاب دیدہ ٔ بینا کا کام ہے۔

اب ایک ایسے نکتے کو لینا ضروری ہے جس پر میں نے بہت غور و خوص کیا ہے۔تخلیقیت کی سطح پر غزل ایک ناکام اور دوغلی صنف ہے۔ چونکہ اسے ایران سے درآمد کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ فارسی اساتذہ کے کلام کو آئیڈیل نمونہ تسلیم کر کے اس کا تتبع، متابعت، پیروی کرنا، اس کی مثالیں سامنے رکھ کر، ان کی تقلید اور ان کے تطابق میں شعر کہنا ہی اردو کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، اس لیے ہندوستان میں جو اصناف سخن پہلے موجود تھیں، ان کے عروض، چھند، پنگل، زحافات وغیرہ کی طرف توجہ مبذول کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا۔اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور میں نے خود درجنوں مضامین میں اس پر بحث کی ہے۔ ان مضامین کا ایک خلاصہ میں نے اپنی یاداشتوں کی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں بھی شامل کیا ہے۔طوالت کے خوف کے باعث کانٹ چھانٹ کے بعد مندرجہ ذیل اقتباس پیش کر رہا ہوں۔

’’غزل بطور صنف شعر اردو پر شروع سے ہی قابض رہی ہے۔ یعنی غزل اور اردو شاعری بہم دگر ایک ہی تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات شاید ولی دکنی اور امیر خسرو کے وقت میں درست نہ ہو لیکن جب ہم گذشتہ تین چار صدیوں کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں تو اس حقیقت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے کہ غزل نے پیر تسمہ پا کی طرح اردو کو ایک ہی جگہ ٹھہرنے یا ایک ہی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور و معذور کر دیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں دو اڑھائی دہائیوں کے قیام کے دوران مجھے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں قیام ، مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس کے جو مواقع میسر ہوئے، ان سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ اگر اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش کہیں بھی کھڑا ہونا ہے تو اسے اس صنف کو ایسے ہی تلانجلی دینا ہو گی، جیسے انگریزی شاعری نے سانیٹ، اوڈ، ہیرائک کپلٹ , وغیرہ اصناف سخن یا شعری اسالیب کو دی ہے۔ سانیٹ اور اوڈ کے موضوعات بھی اسی طرح سکہ بند تھے ، جیسے غزل کی کلاسیکی تعریف و تفسیر ہے۔ ’’بازی کردن ِ محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبّت و عشق ِ زنان‘‘۔

سانیٹ میں صرف دو اقسام تھیں، ’’پیٹرآرکن‘‘ اور ’’ شیکسپیرین‘‘۔ دونوں کی سطور کی تعدا د بھی مخصوص تھی۔ قوافی کا چلن بھی ایسا تھا جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موضوعات بھی سانیٹ اور اوڈ دونوں کے لیے مخصوص تھے۔ انہیں تعریف، توصیف، القاب نوازی، ممنونیت، عرضداشت، دعا یا پھر آفاقی قدروں کے اظہار و اشتہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد اور بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے آنے تک یہ اصناف سخن نا پید ہو گئیں۔ اب ان کو درسی کورسوں میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن شاعری کے ان جریدوں میں جو سینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور شعری مجموعوں میں جو ہر برس ہزاروں کی تعدا د میں منظر عام پر آتے ہیں، یہ اصناف سخن نظر نہیں آتیں۔

میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بلینک ورس کو اردو میں متعارف کروانے والے دیو قد شعرا راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان کے علاوہ دوسرے کئی ترقی پسند شعرا کی کاوشوں کے باوجودبہت سے شعر انے بھی اپنی نظموں میں غزل کی ذہنی عادت کو ترک کرنے کا مظاہرہ نہیں کیااور غزل کے ہی پیش پا افتادہ مضامین، استعارات، تلمیحات اور لگے بندھے امیجز کو اپنی نظموں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ ان میں خصوصی طور پر فیض احمد فیض یا ان کے زیر اثر دوسرے نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ شاعر شامل تھے۔ مشاعروں میں حالت اس سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ غزلیہ شاعری اور وہ بھی ترنم سے، لہرا لہرا کر پڑھنا (گانا) ، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو ایک ماہر گلوکار کی طرح تین بار اٹھاتے ہوئے مصرع ثانی پر تان کو دھم سے ’ لٹکا‘ یا ’جھمکا‘ دے کر ختم کرنا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔اس کی انتہا یہاں تک ہوتی دکھائی دی کہ  شعراء  یا شاعرات کسی پروفیشنل گلو کار سے اپنی غزل کو باقاعدگی سے ’’سنگیت بدھ‘‘ کروا کر، کئی بار گھر میں آئینے کے سامنے اس کی پریکٹس کر کے مشاعروں کے لیے خود کو تیا ر کرنے لگے۔

’’غزل ہماری شاعری کی جان ہے، روح ہے، آبرو ہے، ناموس ہے۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ تو ہم بہت سن چکے ہیں
ان الفاظ، یعنی جان، روح، آبرو، ناموس نے ہی تو اردو شاعری کی لٹیا ڈبو دی ہے۔ کچھ آوازیں ضرور اٹھتی رہی ہیں، الطاف حسین حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم الدین احمد، اختر الایمان، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے! میں نے ان بیس پچیس برسوں میں پندرہ سے بیس تک مضامین لکھے جو ان نیم ادبی رسائل میں شائع ہوئے جنہیں غزل گو شعرا کے علاوہ عوام الناس پڑھتے ہیں۔ا۔ ان مضامین میں میرا لہجہ نرم بھی تھا اور درشت بھی۔ میں نے بار بار مثالیں پیش کر کے ، گراف بنا کر، فلو چارٹ ترتیب دے کر یا ثابت کیا کہ یہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے گونا گوں تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہا ر کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔ یہی اعتراضات اوڈ اور سانیٹ پر بھی کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ شعرا خود ہی ان اصناف سے متنفر اور بد ظن ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف (اور صرف!) بلینک ورس شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ آج جامعات کے کورسوں میں “اوڈ” یاسانیٹ ایک تاریخی عجیب الخلقت شے کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے ربع دور میں قریب قریب اور وسط تک پہنچتے پہنچتے ایک پوری پود پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سانیٹ اور اوڈ کا زمانہ لد چکا، اب بلینک ورس کا دور دورہ ہے۔ بلینک ورس سے فری ورس (نثری نظم) تک پہنچتے پہنچتے کچھ برس انگریزی میں ضرور لگے ،لیکن ایک بار یہ بات طے ہو گئی کہ شاعری ان جکڑ بندیوں میں نہیں پنپ سکتی جو ان اصناف کی بنیادی قدریں ہیں، تو ہو گئی۔

میں نے اپنے مضامین میں اس بات کو خود بھی سمجھا اوردوسروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ غزل سخت جان ضرور ہے اور ہم لوگ طبعاً روایت پسند بھی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائنسی صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیات کے زاویوں سے دیکھا جائے۔ مائیکل رِفا ترے نے اپنی تنقیدی نظریہ سازی میں شاعری میں خصوصاً اور ادب ِ عالیہ کے علاوہ اساطیر میں عموماً اس کا ذکر بار بار کیا ہے، جیسے زیر آب پڑی چمکیلی چیزوں کی طرح (استعارہ مائیکل رِفاترے کا ہے) انسانی ذہن اپنی تخلیقی کار کردگی کے وقت ان کے ہیولے سطح پر لے آتا ہے اور یہ مجموعی نسلی لا شعور کی وہ ’’جواہرا ت سے جڑی ہوئی پرت ‘‘ہے (استعارہ پھر ایک بار مائیکل رِفاترے سے ہے ) جسے ہم صوتی اور لسانی سطحوں پر اپنے پرکھوں سے بطور میراث لیتے ہیں او بغیر سوچے سمجھے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ جواہرات سے جڑی ہوئی پرت صرف ایک ہیولہ  ہے یا در اصل ایک”شئے” ہے ۔کرسٹیواؔ کے تصو”ر بین المتونیت ” کو رِفاترےؔ کے تصور زیر آب پڑی ہوئی چمکیلی چیز کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کلاسیکی غزل کے طریق کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بین المتونیت کی مثال اردو غزل سے سوا (یعنی سو فیصد حدتک)دنیا کے ادب میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ہر غزل اپنے طریق کار میں گذشتہ متون کو اسی حوالے میں لا شعوری طور پر جذب کرتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ اس ’’کیسے‘‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر ، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابک دستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف ِ نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔمرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے ایک مضمون کے جواب میں کراچی سے محمد علی صدیقی صاحب اور گوہاٹی (آسام) سے تارا چرن رستوگی صاحب نے اپنے مضامین میں غزل کے دفاع میں تحریر کردہ اپنے مضامین میں وہی بات دہرائی جو دہلی میں انجمن ترقی اردو کے سربراہ اپنے تضحیک آمیز لہجے میں پہلے کہہ چکے تھے کہ مغربی تھیوریوں سے آراستہ پیراستہ یہ اردو کا ’’دوسرے سے بھی کم درجے کا شاعر‘‘ کیا غزل کو ایک عیسائی میم بنانے پر تلا ہوا ہے؟ رستوگی صاحب کے ساتھ یہ جواب در جواب مضامین جب کراچی کے ایک رسالے سے جگہ بدل کر ’’انشا‘‘ کلکتہ کی زینت بننے لگے تو میں نے پھر ایک مضمون میں حوالہ جاتی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اس سانپ کے سر کو کچلنے کی سعی کی، جس نے تین چار صدیوں سے غزل کے زنگ آلود پارینہ خزانے کو اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ میں نے لکھا،
’’ہم سب جانتے ہیں کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے، لیکن اردو غزل کے طریق کار میں استعارہ صرف ایک Paradigmatic baseہی نہیں، بلکہ یہ اس بنیاد پر Syntagmatic بھی ہے ۔ مغرب میں شعری طریق کارکا چلن یہ ہے کہ وہ استعارے کو صرف ایک “شئے” نہ فرض کرتا ہوا ، اس کے بجائے اس کی برابری میں ایک “ہیولےٰ” کو فرض کر کے استعمال کرتا ہے، لیکن غزل میں یہ قائم مقام بدل کا سلسلہ در سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک چارٹ بنا رہا ہوں۔

مضمون
محبت کرنا
Pradigmatic
استعارہ:محبت میں گرفتار ہونا (گرفتاری، مجبوری، آزادی کا فقدان وغیرہ)

Syntagmatic
استعارے:چمن ،قفس، صیاد، طائر، دام ، بال وپر،شکستگی، آشیاں، پر ِ پرواز کا کاٹ دینا،برق ِ تپاں،آتش زدگی، ، طوفان باد و باراں، آسمان، تیر کمان وغیرہ ۔
Sub-syntagmatic
استعارے:قفس،رودادچمن،ہمدم،اوردرجنوں دیگرذیلی استعارے

اگر بری سفر کا استعارہ ہو گا، تو دشت، طوفان، تشنگی، کانٹے ، پاؤں کے چھالے ، کارواں، میر کارواں، محمل، گرد و غبار ، ’’بو علی‘‘ ، قزاق، وغیرہ ذیلی استعارے پیادوں کی طرح ہمراہ چلیں گے۔ اسی طرح اگر بحری سفر کا استعارہ ہو گا تو طوفان ،کشتی، سفینہ، جہاز، لنگر ، بادبان ، نا خدا ، تلاطم، کنارہ، ساحل اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے ڈگمگاتے ہوئے ساتھ چلتے جائیں گے۔
ترقی پسند تحریک کے وقت پہلے تو ان استعاروں سے اجتناب برتا گیا اور شعرا پر دباؤ  ڈالا گیا کہ وہ ان سے دور ہیں۔ جگر مراد آبادی جیسے تغزل اور ترنم کے شاعر نے بھی یہ مصرع کہنے پر خود کر راضی کر لیا،

ع: شاعر نہیں ہے وہ جو غزلخواں ہے آج کل

لیکن جب فیض نے اپنی نظموں اور غٖزلوں میں یہی استعارے ایک نئے سیاق میں ، یعنی اشتراکیت کے حوالے سے برتنے شروع کئے تو جیسے غزل گو شعرا سے بھی یہ پابندی اٹھ گئی۔ مجروعؔ کا یہ مصرع ثبوت کے لیے کافی ہے۔

ع اٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے۔

بلراج کومل صاحب یکتائے روزگار شاعر تھے۔ان سے جتنی باردہلی میں بات چیت ہوئی یا جب وہ ایک بار چنڈی گڑھ تشریف لائے ، انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ تین یا اس سے بھی زیادہ صدیوں تک یہ استعارات جو عجمی غزل سے مستعار لیے گئے تھے، اردو غزل پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ان دوران میں ان استعارات کا تبادل کی سطح پر ، یا “ایک برابر ہے ایک کے” کے تناظر میں تصویری پہلو عنقا ہو گیا۔ یعنی محفل یا مشاعرے میں بّری یا بحری سفر (دشت، قافلہ، قافلہ سلار، محمل، ناقہ، گرد پس کاروان، قزاق، رہبر، گم کردہ منزل، یا کشتی، طوفان، ناخدا، ساحل، منجدھار، لنگر، بادبان وغیرہ) پر مبنی syntagmatic & sub-sntagmaticاستعارات کو سن کر سامعین کے ذہن میں کوئی تصویر اجاگر نہیں ہوتی۔ یہ حالت یہاں تک دگر گوں ہو گئی کہ غزل گو شعرا ان ذیلی استعاروں کے فاضل پرزوں (سپیئر پارٹس)کو اپنے ذہن کے کارخانوں کے شیلفوں پر رکھے ہوئے باآسانی اٹھا کر کسی بھی شعر میں جڑ دیتے۔ آج تک اردو میں جو لاکھوں کروڑوں غزلیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے نناوے فیصد اشعار اسی قماش و قبیل کے ہیں اور اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔

جن احباب نے میرے ان خیالات سے اتفاق کیا ان میں گیا (بہار) کے کلام حیدری بھی تھے، اور سری نگر کے پروفیسر حامدی کاشمیری تھے جو ابھی شعبہ اردو کے سر براہ تھے اور اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں ہوئے تھے۔اُن سے دو تین خطوط کے تبادلے میں ہی یہ صورتحال زیادہ واضح ہو گئی۔ اب یہ خطوط تو میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن اس امر کے باوجود کہ وہ خود غزل کہتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ سب یورپی زبانوں میں ہر نیا دور اپنے استعارے اپنے ساتھ لاتا رہا ہے لیکن بوجوہ اردو میں یہ نہیں ہوا اور ہم لکیر کے فقیر کی طرح چلتے ہوئے دائروں میں گھومتے رہے ہیں ، یہاں تک فیض احمد فیض اور ان کے پیروکار ان استعاروں کے سوکھے چھلکوں سے بائیں بازو کی سیاست کا نیا رس نچوڑنے کا جتن کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہر استعارے کے تصویری پہلو کو صرف عصری زندگی کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وجوہ کیا تھیں ان میں ایک بار پھر جانا مناسب نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اردو غزلیہ شاعری میں ہمیشہ خود کو دوسرے نمبر کا شہری سمجھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اگر غالب جیسا زمانہ ساز شاعر بھی اپنے فارسی دواوین کو اردو دیوان پر فوقیت دے سکتا ہے (اور یہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے) تو دیگر شعرا کا ذکر ہی کیا؟

میں نے اپنے نصف درجن کے مضامین میں اس حقیقت کا ذکر کیا کہ آج تک ہم اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی شاعر الیکذانڈر پوپؔ کو ہیرائک کپلٹ یعنی قافیہ بند اشعار کا کامیاب ترین شاعر تسلیم کرتے ہیں۔اس کی کچھ نظموں میں، جو سینکڑوں اشعار کا مرقع ہیں، پچاس یا اس سے بھی زیادہ قسم کے قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔ حروف ابجد کی تعداد کے حساب سے ان قوافی میں ہر بار صرف آخری دو حروف یعنی ایک حرف ِ صحیح اور ایک حرفِ علت کے انسلاک سے قافیے کی تشکیل کی گئی ہے۔ میں نے اپنے برٹش اوپن یونیورسٹی کے دنوں میں جب انگلستان میں مقیم ہندوستانی یا پاکستانی طلبہ کے لیے ایک کورس کی تشکیل کرتے ہوئے غزل میں قوافی کے طریق کار اور انگریزی  میں ہیرائک کپلٹ کی روایت پر غور کیا تو مجھے اچنبھا ہوا کہ پوپؔ یا اٹھارھویں صدی عیسوی میں ہی انگریزی کے دیگر شعرا کے ہاں صرف ایک ہی چلن ہے، یعنی آخری لفظ جو صرف دو یا تین آوازوں سے متشکل ہو، اسے ہی قافیہ بند کیا جائے، جیسے:
last / fast: ruse/fuse : for/nor : leave / weave : bold / sold
وغیرہ ، جب کہ ہمارے ہاں غزل میں یہاں تک آزادی ہے کہ صرف ایک آخری حرف علّت،الف (ممدودہ اور مقصورہ )، ’’ ہ ‘‘(ہائے مختفی یا ہائے ہوز)، ’’ی ؍ ے ‘‘ (یائے معروف اور یائے مجہول کا قافیہ بھی ممکن ہے، اور چار یا پانچ یا اس بھی زیادہ حروف سے متشکل الفاظ بھی قافیہ پیمائی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے جہاں غزل میں ایک صوت کے سبھی قافیے لانے کی پابندی ہے، (جو کہ ہیرائک کپلٹ میں نہیں ہے) وہاں یہ آسانی بھی ہے، کہ اگر آپ کسی ’’ مصرع طرح ‘‘ پر غزل موزوں نہیں کر رہے ہیں، تو آپ کسی بھی ایسی زمین کا انتخاب کر سکتے ہیں، جس میں قوافی کو صرف ایک آخری حرف علت کی صوت کو ہر مصرع ثانی میں یکساں رکھ کر ، صوتی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے اشعارگھڑے جا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون آفرینی کے بارے میں بلراج کومل صاحب (مرحوم )کے الفاظ میری ڈائری میں درج ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر دس بارہ برسوں کے بعد شعرا کی ایک تازہ پود کچھ استعارے میل جول سے ترتیب دے لیتے ہیں جو دیکھنے یا سننے میں کانوں کو تازہ دم اور تازہ کار محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی روح اصل وہی اسی پرانی جڑ سے شاخ در شاخ پھوٹتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ مضمون آفرینی چونکہ غزل کی بنیادی صفت ہے، یہ جاننا ضروری ہو گا کہ غزل کے کسی شعر کو بھی مضمون کے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا جائے۔ لیکن ’’شعر‘‘ اپنے آپ میں ’’مضمون‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی ’’معنی‘‘ اور ’’مضمون‘‘ دو الگ الگ اجناس ہیں۔ مغربی شاعری کے طریق کار میں یہ تفریق نہیں ملتی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply