گاربیج آئی لینڈ/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جزیرہ ،خس و خاشاک جب کُھلا، تو کُھلا
کہ جیسے زیر ِ زمیں اک کباڑ خانہ ہو

ہزار کونے تھے، کھدرے تھے، تنگ، تیرہ و تار
شکستہ چیزوں کے انبار تھے تہ و بالا
کچھ ایسی تیرگی تھی جس میں سب ہویدا تھا

کھلونے، گڈّے، غلیلیں، کٹی پتنگیں، ڈور
کتابیں، کاپیاں، دیمک زدہ پھٹے کاغذ
پرانی تاش کے پتّے تھے اور گلی ڈنڈے
ٹنگی ہوئی کسی پتلون کی پھٹی جیبیں
نُچی کھُچی ہوئی باہر نکل کے لٹکی تھیں

گھسے پٹے ہوئے پاؤں، حنوط، سوکھے ہوئے
جہاں تہاں نظر آتے تھے موزوں کے اندر
کچھ ایک ہاتھ تھے، دستانوں میں چھپائے ہوئے
کسی نے برسوں سے جن کو چھپا کے رکھّا تھا
خیال آیااک لمحے کو یہ سبھی آثار
مرے قبیل کے سیلانیوں کے ہیں، جن کا
جزیرۂ خس و خاشاک نے شکار کیا !

پرانی چادریں بستر کی، داغدار، کثیف
لٹکتے خولوں سے کانڈوم ، گندے، پچکے ہوئے
مباشرت میں ملوّث، یہ بے زبان گواہ
زبان ِ حال سے اس کی گواہی دیتے تھے
ہوس پرستی کے کچھ کام بھی ہوئے ہیں یہاں!

چھچھورے پن کی چھچھوندر پھڑکتی تھی ہر سو
غلیظ چیتھڑے حیوانیت سے آلودہ
اندھیری چھت سے لٹکتے ہوئے تھے چمگادڑ
تماش بین ، بد افعال، بھڑوے، رنڈی باز!

ہر ایک کونے میں ناکارگی کے خار و خس
ہر اک سمت لا حاصل، فضول، طمعٗ خام
وقیع، معتبر، قدر و مقام کچھ بھی نہ تھا
اگر تھی کوئی طلب اس جگہ تو وہ تھی ہوس
کسی بھی کردہ گنہ کو دوبارہ کرنے کی!

Advertisements
julia rana solicitors london

عجیب تھا یہ جزیرہ زمین کے نیچے
کہ سارے گذرے دنوں کی پھپھوند، باس، سڑاند
گلی، سڑی ہوئی ، بوسیدہ باقیات ِ حیات
بچے کھچے ہوئے آثار ِزیست ، جن کو کوئی
بھلانے کے لیے دفنائے اک جزیرے میں
ہر ایک شب انہیں خوابوں میں دیکھنے جائے
ہر ایک صبح پھر دنیا میں اپنی لوٹ آئے!
۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ماریشیئس (بحر ہند) کے صدر جزیرے کے قریب ہی ایک چھوٹا سا جزیرہ جس میں رہائشی جزیروں کا کوڑا کرکٹ کشتیوں میں لے جا کر پھینکا جاتا ہے ۔ اس کا نام ہی ـ گاربیج آئی لینڈ رکھ دیا گیا ہے)
نظم لکھنے کے بعد میں نے سوچا کہیں یہ ایک جزیرے کے علاوہ میرے اپنے لا شعور کا نقشہ تو نہیں ہے؟

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply