منظوم بُدھ کتھائیں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شہر کی اک خوبصورت نرتکی نے

خوبرو آنند کو باہوں میں بھر کر
یہ کہا، “تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ یہ میری دولت و ثروت ،یہ جاہ و حشم،یہ اونچا محل
اور سب بڑھ کر مَیں، تمہارے منتظر ہیں!

بھولا بھالا، خوبرو، آنندؔ ،یہ باتیں نہ سمجھا
پوچھنا ہو گا ، تتھا گت سے،” کہا اور لوٹ آیا

“آپ سے کچھ پوچھنا ہے ”

‘‘آؤ، پوچھو۔۔۔’’

وہ نگر کی خوبصورت نرتکی ہے’’
مجھ سے کہتی ہے، کہ میرے پاس آؤ
مجھ کو تو۔ ۔‘‘

“بول، آنند”

بولتا تو ہوں، مگر ڈرتا ہوں ایسی بات کرنے سے۔تتھاگت‘‘۔”

“۔بول،آنند”

‘‘جنس کی خواہش سے ،یعنی واسنا سے۔۔آپ نے، بھگوان، کیسے۔۔۔؟”

“اپنے استفسار پر مت ہچکچاؤ’’

ہاں، تتھاگت’’
آپ کے جیون کا یہ اک راز مجھ سے کھل نہیں  پایا۔
بتائیں ۔۔۔ واقسنا سے ، جنس کی خواہش سے کیسے آپ نے پیچھا چُھڑایا؟
‘‘اک یشودھا، اپنی پتنی چھوڑ دینے سے، تتھا گت، آپ کو کیا جنس کی خواہش سے چھٹکارہ ملا تھا؟

بُدھ آنکھیں موند کر ، انتر جگت میں جا بِراجے
چند لمحے غرق رہ کر پھر اُبھر آئے۔۔۔کہا
میں خود، یشودھا اور بچہ
جانے کتنی
ان گنت صدیوں سے
یوں جکڑے ہوئے تھے۔۔
آور سہ بندھن ہنمارا ایک ایسا جال تھا
جس سے نکلنا
میرا بندھن توڑنا
ان سے بچھڑنا
میرا پہلا کام تھا ۔۔نروان کے رستے پہ پہلا پاؤں
آگے کی طرف۔۔
کیا سُن رہے ہو؟”

“ہاں، تتھا گت، سُن رہا ہوں ”

جنس کی خواہش کسی مخصوص عورت کے لیے ہو’’
کوئی اک عورت ہو، جس سے
منسلک ہو کر تمہاری عمر گذرے۔۔۔

“آپ کا مطلب ہے، شادی یا بیاہ۔۔۔’’
‘‘منڈپ میں اگنی کی گواھجی سے، تتھا گت؟

“۔۔۔یہ نہیں، آنند، میرا اس سے مطلب یہ نہیں ہے’’
بیاہ یا شادی تو دنیا کے دکھاوے کے لیے ہیں
میں نے بس اتنا کہا تھا
“کوئی اک عورت ہو، جس سے منسلک ہو کر تمہاری عمر گذرے
جنس ، یعنی واسنا تو ہے، مگر یہ
ـواسنا ایسی نہیں ہے، جس  سے چھٹکارہ نہیں ہے

کوئی چھٹکارہ نہیں ہے ۔۔؟’’

میرا بندھن توڑ کرگھر سے نکلنا’’
صرف ان جنموں کا بندھن توڑنا تھا
جن سے میں جکڑا ہوا تھا
‘‘واسنا کو چھوڑنے کی بات کب تھی؟

ہاں ، تتھا گت، اب سمجھ میں آئی ہے بات’’
‘‘۔۔مجھ کو

تم اگر سمجھو، یشودھا اور بچہ چھوڑ کر میَں
جِنس کی خواہش سے مکتی پا گیا ہوں
‘‘تو غلط ہے؟

ششدر و حیر اں کھڑا آنند

یہ باتیں نہ سمجھا۔۔۔پھر بھی آخر پوچھ بیٹھا

“میرے بارے میں تتھا گت، آپ کا کیا فیصلہ ہے؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تمہارا اپنا ذاتی فیصلہ ہو گا۔۔۔’’
تمہارے اس جنم کا یا کسی اگلے جنم کا
اک نیا بندھن جسے تم
اپنے ہاتھوں سے گلے میں باندھ لو گے
سوچ کر آگے بڑھو، آنند بھکشو !

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply