“غالب” کمرہ ء جماعت میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا
جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالبعلم -ایک
یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟
اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟
اک قدم ہی بردباری کے مکاں سے انخلا؟
طالبعلم -دو
ہاں، یہی لگتا تو ہے شاعر کا مطلب

طالبعلم -ایک
یہ قدم، پہلا قدم
گویا رواقیت سے پاگل پن کی جانب ؟
سیدھی سادی عقل سے آشفتہ یا مدہوش ہوجانے کی حالت؟
جوش ، جذبہ، طیش،آتش زیر پائی ؟
طالبعلم -دو
ہاں، یہی لگتا تو ہے شاعر کا مطلب

استاد ستیہ پال آنند
جی نہیں، شاعر کا مطلب یہ نہیں ہے
کم سے کم اس شعر میں غالبؔ کا مطلب یہ نہیں ہے
اس کے “وحشی” کا تصور
بد سلیقہ، اوچھا ، بد تہذیب تو بالکل نہیں ہے
اور ہی کچھ ،یعنی بالکل مختلف ہے!

طالبعلم -ایک
کیا ہے، استاذی، بتائیں
استاد (ستیہ پال آنند)
لفظ کی گہرائی ماپیں، تو کھلے گا
والہانہ کیفیت، دیوانگی، مفتون ہونا
باؤرا، مجنون ہونا
خود فراموشی میں اپنا “آگا پیچھا” بھول جانا
سر پھِرا، شوریدہ سر ہونے کی حالت
خود سےغیر آگاہ ہونا
اور یہ بھی بھول جانا، کون ہوں میں؟
کیا نہیں وحشت کی یہ اصلی علامت؟

طالبعلم -ایک
جی ، ہاں، شاید
عین ایسا نہ بھی ہو شاعر کا مطلب
عندیہ اس کا یہی ہے
طالبعلم ۔ دو
“یک قدم”کے بعد پھر کچھ اور بھی ہے
اس کو دیکھیں!

استاد (ستیہ پال آنند)
آئیں ، دیکھیں ، “یک قدم” کے بعد ۔۔۔۔
“درس ِ دفتر امکاں” کھلا
گویا اس نے(درس ِ اوّل) دفتر ِ امکاں سے بڑھ کر لے لیا ہے
“درس کیا ہے؟

طالبعلم -ایک
“د رس” ۔۔۔ رُشد و رہنمائی
اک سبق، تشریح ۔۔۔ یا کچھ اوربھی ۔۔۔کیا؟

استاد (ستیہ پال آنند)
درس، ابجد، ناظرہ، آموختہ ہے
سیدھا سادا اک سبق ہے
گویا اس کے اپنے ہی بارے میں استفسار ہے یہ
خود سے گویا پوچھتا ہے
کیا صلاحیت ہے مجھ میں؟
در خور ِ امکاں کوئی کچھ اہلیت بھی ہے مرے اندر
کہ جس سے جان پاؤں
کون ہوں میَں؟

طالبعلم –ایک
جی، جزاک اللہ، استاذی، سمجھ میں آ گیا سب
طالبعلم-دو
اب چلیں، آگے، ذرا سا ۔۔اس کو سمجھیں۔۔
“جادہ ، اجزائے دو عالم، دشت کاشیرازہ تھا”
دشت کا شیرازہ کیا تھا ، محترم، یہ تو بتائیں

استاد (ستیہ پال آنند)
حصّے، بخرے، ٹوٹے پھوٹے دشت کے اعضا۔۔بمعنی
وہ جو اک رستہ تھا، پگڈنڈی تھی، خار و خس کی، جس پر
صوفی و دیندار، سنت اوتا ر، سارے
اس دو عالم (عالم ناسوت اور لاہوت) کی
دوری کو طے کرتے ہوئے
اللہ تک پہنچے تھے۔۔۔یعنی
اس جہاں اور اُس جہاں ۔۔
دونوں جہانوں کو ملانے کی کڑی تھے

Advertisements
julia rana solicitors london

طالبعلم ایک اور دو
(بیک آواز)
خوب، استاذی، دقیقہ حل ہوا، سارے معانی وا ہوئے ۔۔ اب
یک قدم”۔۔۔یعنی وہ پہلا اک قدم مشکل ہے۔۔۔
اس کے بعد تو رستہ کھلا ہے !

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply