ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور نقاد-ایک ذاتی تاثر( حصّہ اوّل)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک ذاتی تاثر گذشتہ صدی کی ۱۹۵۰ء  کی دہائی میں جب ابھی میں ایم اے (انگریزی ادبیات) کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو کئی بار یہ خیال ذہن میں جاگزیں ہوتا ہوا محسوس ہوتا تھا کہ انگریزی کی←  مزید پڑھیے

​وقت کا بوڑھا جپسی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وقت کا بوڑھا جِپسی یہ کہتا ہے مجھ سے لوگ جو اتنی چلدی بؤرھے ہو جاتے ہیں تو کیسے لگنے لگتے ہیں! رخساروں پر زردی۔۔۔آنکھوں کے نیچے بد رنگ گڑھے سے اورآنکھوں کے دائیں بائیں کسی پرندے کے پہنجے کے←  مزید پڑھیے

کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 ​ڈاکٹر گو پی چند نارنگ اب نہیں رہے لیکن ان کی یاداشتیں جا بجا مییرے فیس بک کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔ یہ تحریر ایک تقریر کا متن ہے جو امریکا اور کینیڈا کے فاصلے کو عبور کرتی ہوئی←  مزید پڑھیے

طفلِ سِن رسیدہ۔ ستیہ پال آنند

سو برس کا میں کب تھا، منشی ِ وقت؟ کب نہیں تھے؟ ذرا بتاؤ تو تم یقیناً کہو گے، بچپن میں کھیلنے کودنے میں وقت کٹا جب شباب آیا تو ؟۔۔کہو، ہاں کہو کیا برومند، شیر مست ہوئے؟ کیا جفا←  مزید پڑھیے

​مرزا غالب اور ستیہ پال آنند ،بہم گفتگو

لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مراد کیا ہے یہاں؟ مر←  مزید پڑھیے

ملامتی ہوں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“ملامتی ہوں” صوفیوں کے ملامتیہ فرقہ کے ایک فرد کے بارے میں ہے، جو واحد متکلم “میں” First Person Pronoun کے فارمیٹ میں لکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ “انا” کو ختم کرنے کے ہزاروں اقدام کے بعد کیا←  مزید پڑھیے

​​​میری نظریہ سازی میں کیا کچھ محرک ثابت ہوا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں میرے مطالعہ کی رفتار بہت تیز تھی۔ یونیورسٹی میں دو پیریڈ پڑھانے کے بعد میرا معمول دوپہر کو قیلولہ کرنا نہیں تھا، لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا تھا۔انہی برسوں میں مَیں نے کروچےؔ←  مزید پڑھیے

غالب پر ایک نظر ثانی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گر بہ معنی نہ رسی جلوہ ٔ صورت چہ کم است خم ِ زلف و شکن طرف ِ کلاہے دریاب غالبؔ کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ کہ اس نظم میں اس کمترین شاعر ستیہ پال آنند نے غالبؔ←  مزید پڑھیے

​سنسکرت کی “شِشو کتھائیں” (بچوں کی کہانیاں)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بادل کی آنکھوں میں آنسو بادل کی آنکھوں میں جلتے گنتی کے کچھ آنسو ہی تھے ڈھلک گئے تو اس کو راحت کا کچھ کچھ احساس ہوا، پر نیچے دھرتی پر تو جیسے آگ لگ گئی ایک جھڑی سے دھوپ←  مزید پڑھیے

کُونج کنواری۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں ہوتا اس دور میں تو سلوا ـ ن کو اتنا کہہ ہی دیتا چودہ برس کی کونج کنواری ٹھنڈی آگ کو اس گھر میں مت لاؤ، راجہ جس میں بارہ تیرہ برس کا ایک کھلندڑا بالک بھی رہتا ہے←  مزید پڑھیے

گیارہ سروں والا اک راونؔ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دس سر والے راونؔ کے کندھوں پر میں نے اپنا سر بھی ٹانک دیا ہے اب دیکھیں، گیارہ سر والے نئے نویلے شکتی مان راون کو ہرانے کون آئے گا؟ رامؔ بھلا کیسے کاٹے گا راون کے دس کے دس←  مزید پڑھیے

OBITUARY (خود وفاتیہ)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ نظم میں نے اپنی موت کے بعد لکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سر پھرا ، پاگل تھا وہ اک شخص جس نے دل کے بیت المال سے حاصل شدہ الفاظ کے عمدہ، نمو پرور لہو سے شاعری کی پرورش کی تھی←  مزید پڑھیے

ایک غصیلی نظم/تھوکنا چاہتا ہوں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو←  مزید پڑھیے

آگ کیسے لگی؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مرنے والے تو سب یوکرینی ہیں، لیکن کوئی یہ بتائے کہ یہ آگ اس ملک میں کس عدو نے لگائی۔۔۔کہ ہے کون جو پھوس کے ڈھیر پرتیل لحظہ بہ لحظ چھڑکتا چلا آ رہا ہے؟ مغربی طاقتوں نےیہ ترغیب دی←  مزید پڑھیے

کابل سے آئی ایک لڑکی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گذشتہ برس کی اس نظم نے کئی دوستوں کو رُلا دیا تھا۔ میں تو اسے بھول گیا تھا لیکن کابل سے آنے والی تاذہ ترین خبروں میں عورتوں کے حقوق کی پامالی اب برداشت کی حد سے آگے بڑھ چکی←  مزید پڑھیے

نہ”کافی”،نہ”چائے”۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پرانے زمانے میں، (تم ہی بتاؤ) کہاں تھے یہ مشروب دونوں؟ نہ ’’کافی‘‘، نہ چائے۔۔۔ فقط شوربہ، دودھ، یا سُوپ (بد ذایقہ، بکبکا، ترش، کھٹّا) کبھی گھر کے’’ ـلاہن‘‘کا ’’دس نمبری‘‘ تیز ٹھرّا ‘ یہی سب تھیں پینے کی چیزیں←  مزید پڑھیے

اصلی چہرہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنے چہرے پر ’مکھوٹا‘ ِسا چڑھانا ایک جھوٹی شخصیت سب کو دکھانا یہ تھا میرا ’’ـچھُپ چھُپاؤ ـ ‘‘ کھیل بچپن کا جسے میں کھیلتا آیا ہوں اپنی عمر ساری (اپنی اصلی شخصیت کی راز داری) پھر ہوا کچھ یوں۔←  مزید پڑھیے

​ بانوےبرسوں کا یہ بوجھ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کھول یہ گانٹھوں بھری پوٹلی، اے ستیہ پال جانے کیا اس میں ہے پوشیدہ تری نظروں سے آج کا ’’کل‘‘ تو نہیں؟ ہو بھی تو مخفی ہی رہے کل‘‘ تو ’’ایمائی‘‘ ہے، ’’اَن دیکھا ‘ہے، ’در پردہ‘ہے’ ’ تُو، سر←  مزید پڑھیے

قافیہ بندی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

غالب کے۲ اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قافیہ بندی صفحہٗ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید ڈگمگاتے، گرتے پڑتے کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے پیچھے←  مزید پڑھیے

اپنی تصویر دیکھ کر روئیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 سوال مسخ شدہ، بد زیب، اُوپرا چہرہ بد وضعی، بد زیبی کی تزئین میں اجبک کل کا حسن مثالی ۔۔۔آ ج کا بد ہیئت، بے ڈھنگا بول آ ئینے، کیا پیری کا یہی ہے چہرہ؟ جواب حجریات سے باہر نکلو،←  مزید پڑھیے