استاد محترم مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب۔۔محمد اکمل جمال

ویل چیئر  پرتشریف فرما، صحیح بخاری سینے سے لگائے یہ بزرگ صرف میرے نہیں، ان کے ہر شاگرد کے سب سے محبوب استاد مولانا محمود اشرف صاحب مدظلہم ہیں، اساتذہ بہت ہوتے ہیں، ہر استاد سے شاگردوں کی محبت ہوتی ہے، مگر یہ ایسے استاد ہیں، جن سے ہر شاگرد کو ٹوٹ کر محبت کرتے دیکھا ہے۔اس محبت کی کوئی وجہ ہے، تو وہ یہی کتاب اور اس سے جڑا تعلیم وتربیت کا وہ پاک رشتہ ہے، جس میں اخلاص، محبت اور ہمدردی کے علاوہ کچھ نہیں۔اور اس کتاب اور اس کی تعلیم، شاگرد کی تربیت سے پھر جو رشتہ حضرت الأستاد کو ہے، وہ شاید وباید ان کی طرح کسی کو حاصل ہو۔
استاد جی کی تربیت تو ایسی ہے  کہ ان سے پڑھے ہوئے ہر شاگرد کو قدم قدم پر، زندگی کے ہر موڑ پر ان کی تربیت ہی کام دیتی ہے، ان کا ایک ایک جملہ اتنا موثر کہ مجال ہے  کوئی کام کرے، استاد جی کی اس سے متعلق کہی بات یاد نہ آئے۔ اندازِ تربیت اتنا پیارا، اتنا نرالا کہ ایک جملہ دہراتے منہ مٹھاس سے بھر آئے۔

جہاں تک کتاب سے ان کے رشتے کا تعلق ہے، تو اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ انہوں نے خود کو صرف پڑھنے، پڑھانے تک محدود کر رکھا تھا، اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا مشغلہ نہیں تھا، کتاب کے علاوہ گویا ہر چیز ان کے نزدیک اس پیشے کا رقیب ہے۔
پانچویں صدی ہجری کے محدث شیخ ابو اسماعیل الأنصاری “طلب حدیث” کے متعلق فرماتے ہیں : هذا الشأن شأن من ليس له شأن سوى هذا الشأن” کہ یہ کام صرف وہی کر سکتا ہے، جس کا اس کے علاوہ کوئی مشغلہ نہ ہو۔

ہم نے استاد جی کو اس مقولے کا زندہ مصداق پایا ہے،وہ اپنے استاد حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ کے “تفرغ للعلم” کی باتیں درس میں سناتے تھے، استاد جی در حقیقت، اس وصف میں خاص کر ان دو اساتذہ کے پَر تو تھے۔

حقیقت یہ کہ اس زمانے میں استاد جی کی طرح خود کو صرف کتاب اور درس گاہ تک محدود رکھنا نہایت مشکل ہے، مگر استاد جی کی تو یہ جیسے فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی، درس گاہ سے ان کی غیر حاضری مجھے یاد نہیں ہے، نہ یہ یاد ہے کہ وہ باہر کے کسی، جلسے، پروگرام یا کسی دوسری تقریب میں شریک ہوئے ہوں۔

ایک پہلو کتاب سے ان کے رشتے کا یہ بھی ہے کہ استاد جی روز درس گاہ تشریف لاتے ہوئے اپنی کتاب ساتھ لاتے تھے، ہمیشہ کتاب کو یوں سینے سے لگائے آتے، کبھی استاد جی کو کتاب بغل میں دبائے، یا ہاتھوں میں یوں اٹھاتے نہیں دیکھا،  وہ  کتاب  ہمیشہ سینے سے لگائےرکھتے  ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

استاد جی آج کل سخت علیل ہیں، تازہ حالت ان کی تشویشناک بتائی جا رہی ہے، اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنے خصوصی فضل وکرم سے استاد جی کو صحت وقوت نصیب فرمائے! ان کو زندگی میں برکتیں نصیب فرمائے، ہم ان کے سایہء  شفقت سے   محروم نہ فرمائے۔
اللهم أذهب البأس ربّ الناس فاشف أنت يا شافي!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply