مجھے ایک چھوٹی لڑائی لڑنی ہے/عامر حسینی

ان دنوں میں اپنے کتب خانے میں موجود ‘نکسل باڑی تحریک’ سے متعلق کتابوں کو ایک ایک کرکے دوبارہ سے پڑھنے میں لگا ہوا ہوں، ایسا نہیں ہے کہ مجھے بجلی ، گیس کے مہنگے بل تنگ نہیں کررہے یا تیل کی بلند ترین قیمت نے میرا حال برا نہیں کیا یا مجھے سبزی ترکاری کے لالے نہیں پڑرہے اور محنت کا دورانیہ کم ہوگیا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے لیکن میں اپنے غصّے، برہمی، رنج اور سب ککچھ جلا کر راکھ کردینے والی کیفیت کا ترفع / کتھارسس کرنے کے لیے وہ راستا اختیار کررہا ہوں جسے میں نراجیت/ انارکی کی طرف نہ لیجانے کی حکمت عملی کہتا ہوں۔ ورنہ حالات سے مجبوری ، بے بسی کی کیفیت اتنی ہے کہ میرا دل کرتا ہے میں بھی اس عراقی عورت کی طرح کروں جس نے اپنے گرد بارود باندھا اور بغداد کے ہائی سیکورٹی زون کی باہر کی طرف پہلی چیک پوسٹ پر کھڑے امریکی فوجیوں کے درمیان خود کو اڑا لیا تھا – یا بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی طرح کروں کہ کہیں پر کسی آج کے سانڈرس کو نشانہ بنانے کی کوشش کروں یا پھر جہاں اشرافیہ کا نمائندہ اجتماع ہو، وہاں پر بم پھینک دوں اور ‘انقلاب زندہ باد ‘ کے نعرے لگاؤں۔ یا پھر میں سردار اودھم سنگھ کی طرح آج کے کسی مائيکل اڈوائر کو تلاش کروں اور اس کو نشانہ بناؤں ۔۔۔۔۔۔ میں یہ سب نہیں کررہا تو اس کی بہت واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جوانی کے جوش میں ریاستی و غیر ریاستی تشدد و بربیت، جبر وستم کے خلاف جنھوں نے بھی ‘انفرادی دہشت گردی’ کا راستا اختیار کیا، اگر انہیں بعد ازاں غور و فکر کا موقعہ ملا ، چاہے وہ بھگت سنگھ کی طرح کال کوٹھڑی میں ہی کیزں نہ ملا ہو ، سب نے ‘انفرادی دہشت گردی’ کو ‘حل’ ماننے سے انکار کیا- اگر وہ پھانسی چرھنے سے بچ گئے جیسے پاش سندھو بچ گیا تھا (یہ اور بات ہے اسے اسے نراجیت پسندوں نے قتل کردیا تھا ) تو انہوں نے طبقاتی سماج کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا-
بالشویک انقلاب کا کامیاب تجربہ کرنے والا لینن کا بھائی بھی انفرادی دہشت گردی کے راستے پر چلا تھا اور پھانسی جڑھ گیا تھا، ابتداء میں لینن بھی اپنے بھائی کے راستے پر چلا لیکن جلد ہی اسے بھی سمجھ آگیا تھا کہ انفرادی دہشت گردی سے وقت کے ‘زار’ کو گرایا نہیں جاسکتا بلکہ وہ اور خوفناک ہوجاتا ہے۔
لیکن میں یہ بھی کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ ہر مظلوم کے پاس اسقدر گہرائی میں جاکر سوچنے کا وقت نہیں ہوتا یا اسے ظالم و جابر اتنی مہلت ہی نہیں دیتے کہ وہ اس طرح سے سوچ سکے، اسی لیے اکٹر و بیشتر لوگ ہر پیش بینی کو بالائے طاق رکھ کر آتش نمرود میں کود جاتے ہیں – اور چاہے کسی کو کتنا ہی برا لگے میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مظلوموں اور مجبوروں میں سے جب کوئی فرد یا گروہ مائل بہ تشدد ہوتا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ظالموں اور جابروں پر ہوا کرتی ہے۔
خیر بات کو مزید لمبا نہیں کروں گا، آئیں زرا نکسل باڑی تحریک سے شدید متاثر پنجابی شاعر کمار وکال کی ایک نظم کی قرآت میں آپ کو شریک کرتا ہوں ، نظم کا نام ہے ‘گاؤں’ ، وکال کہتا ہے،
جب میرا لڑکا
اسکول سے لوٹتا ہے اور نہیں پاتا اپنے گاؤں کا نام
اپنی جغرافیہ کی کتاب ميں
تو مجھ سے پوچھنے لگتا ہے
اس میں یہ کیوں نہیں ہے
میں ڈر سے چپ رہتا ہوں
مگر میں جانتا ہوں، یہ چار حرفی سادہ سا لفظ
محض ایک گاؤں کا نام نہیں ہے
بلکہ یہ تو سارے ملک کا نام ہے
مغربی بنگال میں دار جلنگ ضلع کی تحصیل سالگری کا ایک گاؤں نکسل باڑ وہ گآؤں ایسا ہے جو پہلے تو گمنام تھا لیکن اس گاؤں سے کسانوں کی مسلح مزاحمت نے جنم لیا جسے نکسل باڑی تحریک کا نام دیا گیا اور پھر یہ ہندوستان بھر کی انقلابی مزاحمتی سیاسی تحریکوں کو اسی نام سے جانا جانے لگا- نصابی کتابوں سے، میڈیا سے مزاحمت کی علامتوں کو غائب کردینے سے وہ مٹ نہیں جایا کرتی –
When my child
Returns from school
And not finding the name of the village
In his geography map,
Asks me
Why it is not there,
I am frightened and remain silent.
But I know this simple word of four syllables
Is not just the name of a village,
But the name of the whole country.
وکال کی ایک نظم تو مجھے اپنی آج کل کی حالت کے عین مطابق لگتی ہے
مجھے ایک چھوٹی سی لڑائی لڑنی ہے
جھوٹی جنگ سے تو میں تنگ آگیا ہوں
میں تو اب کوئی مہا جنگ لڑ نہیں سکتا
اب میں نہیں لڑوں گا
ایسے بالشتیا کے لیے ، جو
چند انچ زمین اور حاصل کرنے کے لیے
مجھے جنگ میں ملوث ہونے پر مجبور کرتا ہے
میں کسی علامت، کسی نام ، کسی ّپروگرام کے لیے
اب نہیں لڑوں گا
مجھے تو ایک چھوٹی سی جنگ لڑنی ہے۔
چھوٹے چھوٹے لوگوں کے لیے، چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے
مجھے کمزور کلرک کے لیے لڑنا ہے
جسے نوکری سے بنا چارج شیٹ لگآئے فارغ کردیا گیا
پیٹ میں اس کے السر ہے اور جیب اس کی
بھری ہے انصاف کی درخواستوں سے
وہ سرکاری افسران کے آہنی دروازوں پر
اپنی کمزور ہاتھوں سے دستک دیتا ہے۔
مجھے دہشت کے خلاف لڑائی لڑنی ہے
جو’برابری’ کے نام پر ہم پر مسلط کی
مسکراہٹ سجائے ہوئے ایک درندہ صفت شخص نے
مجھے خود اپنی نظموں کی علامتوں کے خلاف لڑنا ہے
جن کی تاریکی کے سبب
میں اپنی زندگی دھوپ سے محروم ہورہا ہوں
ایک اور ایسا ہی نکسل باڑی شاعر ، ادیب، ڈرامہ نگار تھا جو ایک نہایت غریب کسان گھرانے سے تعلق رکھتا ،1944ء میں پیدا ہوا اور وہ 1982ء میں محض 38 سال کی عمر میں اس لیے مرگیا کہ 38 سالوں میں اس کو بار بار ریاست نے جیل بھیجا اور اسے وہاں اذیتیں دی گئيں اور یہ اتنے مصیبت بھرے دن تھے کہ اس کی صحت بری طرح متاثر ہوگئی اور وہ اپنے جسم میں لگ جانے والے ازار کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا- اس کے ماں باپ نے اس کا نام بدھم بھاسکر ریڈی رکھا تھا لیکن لوگ اسے چیراباندا راجو کے نام سے جانتے ہیں اور یہ 60ء کی دہائی کے ان چھے بڑے شاعروں میں سے ایک تھا جو اپنی بے باک بلکہ منہ پھٹ شاعری کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ آندھرا پردیش کے ضلع نالگونڈا کے ایک گاؤں میں جنما تھا- چیرا اس کا نام اس لیے پڑا یہ بنگالی ادیب سرت چندر چٹوپادھیائے سے بڑا متاثر تھا اور باندا رابندرناتھ ٹيگور سے اس کی والہانہ وابسۃکی کے سبب پڑا تھا- اس کی ایک نظم ہے ‘نیا جنم’ ، اس کی یہ سطریں زرا دیکھیں
میری آواز جرم بن گئی
میری سوچ نراجیت قرار پائی
کیوں کہ
میں ان کی دھنوں پہ گیت نہیں گاتا
میں انہیں اپنے کندھوں پہ لیے نہیں پھرتا
My voice is a crime,
my thoughts anarchy,
because
I do not sing to their tunes,
I do not carry them on my shoulders.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام بھوک
میرا بدن ہتھیار
حملہ میرا وجود
تحریک میری سانس
انقلاب میرا گاؤں
My name is hunger
My body is the weapon
An invasion is my existence
The movement is my breath
Revolution is my village
کیرالہ کا نکسل باڑی شاعر کے جے چندرن کیرالہ کے ضلع ویوند کی پہاڑیوں کے درمیان بہنے والے دریا ‘کبانی’ نام کو اپنی نظم کا عنوان دیتا ہے۔ اور اس کا ایک حاص المناک پس منظر ہے۔ کبھی وقت ملے تو ‘سائلنٹ سکریمز۔۔۔۔ خاموش چیخیں۔۔۔۔۔ دیکھیے گا تب اس نظم کی معنویت آپ پر کھلیں گے ، اس کی کتابی شکل کا پورا متن پڑھنے کے لیے لنگ نيچے کمنٹ میں دے دوں گا
کبانی خاموشی سے یونہی سب سہن کرنے والا نہیں ہے
میں تو سمجھتا ہوں ، ان کے گواہوں کو حق ہے
جو وہ چاہتے ہیں کر ڈالیں
پمی کا لڑکا پوری طاقت سے اپنی آواز کے ساتھ پھٹ پڑ سکتا ہے
پانڈورنگن اپنے مالک کو چھوڑ سکتا ہے
تھمیا اپنے زمین کے مالک کا گلہ کاٹ سکتی ہے
مارچتھن ایک دن اپنے ‘پیرومان’ کے نقش قدم پر چل سکتا ہے
Kabani is not for ever going to suffer in silence –
I suppose their witness have the right to
do whatever they want to –
Pembi’s child can burst out at the top of its voice
Pandurangan can leave his master;
Thema can cut off her landlord’s head; and
Marachathan can follow the example of his ‘Peruman’.
بنیر کہتا ہے
چاند
دریا
پھول ستارے
پرندے
ہم ان پر بعد میں نظر ڈال سکتے ہیں
لیکن آج
اس تاریکی میں
ابھی آخری لڑائی لڑنی ہے
ہماری جھونپڑی میں اب ہمیں جس کی ضرورت ہے
وہ آگ ہے
The moon,
The river,
The flower,
The stars,
The birds –
We can look for them later.
But today,
In this darkness,
The last battle is yet to be fought.
What we need now in our hovel
Is – fire!
#Hafiz

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply