آسیہ بی بی کیس، احتیاط اور زمہ داری۔۔۔ مبارک حسین انجم

آسیہ بی بی کیس پاکستان میں کافی اہمیت اختیار کر چکا ہے ـ آسیہ بی بی کو سزا دلوانے اور معاف کرنے کے حامی ہر دو طبقات کی پاکستان میں بہت زیادہ تعداد ہے ، اور ان دونوں گروہوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ، مولوی اور مذہبی افراد کی بڑی تعدا اگر چہ گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا کے نعرہ کی حامی ہے مگر اسکے ساتھ ہی اسی مذہبی طبقہ کی ایک بڑی تعداد آسیہ بی بی کی رہائی کی بھی حامی ہے ـ اسی طرح پاکستان کا عام آدمی بھی اگر چہ آسیہ بی بی کی رہائی کا حامی ہے مگردوسری طرف یہی عام آدمی بھی گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا کا پرزور حامی بھی ہے ـ

اس ساری بات کو سمجھنے کے بعد ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ آسیہ بی بی کیس محض ایک توہین کا کیس نہیں ہے، یہ ایک سوچا سمجھا پلان ہے جو ملک میں نفرت اور اشتعال پیدا کروانے، اور پاکستان اور مسلمان کا امیج دنیا میں خراب کرنے کے لئے بنایا گیا ہے ـ عام سمجھ میں آنی والی بات ہےکہ “آسیہ بی بی کا تعلق ملک کی اس پسماندہ آبادی سے ہے جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ اور دو وقت کا کھانا بھی پوری طرح دستیاب نہیں ہوتا، اس طبقہ کی ایک عام عورت کو اپنے مالی حالات اور بچوں کی فوج کے درمیان کچھ اس طرح سے گھری ہوتی ہے کہ اسے خود اپنی حالت حال تک پہ بھی سوچنے کی فرصت میسر نہیں ہوتی، پھر کیسے ممکن ہے وہ کسی بھی مذہب کے حساس ترین معاملات پہ گفتگو کا سوچ سکے۔

یہ ایک پالیسی ہی ہے، جسکے تحت ہر تھوڑی مدت بعد کوئی ایسا واقعہ کسی سے سرزد کروایا جاتا ہے ، پھر اس واقعہ کے کرداروں کے خلاف فوری تادیبی ایکشن بھی وہی مافیا،پلان کےمطابق اپنے ہی ہی ایجنٹ مولوی نما لوگوں اور عام ایجینٹوں کی مدد سے کچھ سادہ لوح عوام کو ساتھ ملا کر کرتے ہیں ـ اور پھر اس واقع کو پوری طرح سے اچھالا جاتا ہے اور اس واقعہ کی وجہ اور بنیاد پہ کسی کو بھی بات نہیں کرنے دی جاتی ، بلکہ اپنے میڈیا رسوخ کو استعمال کرکے اس سے اٹھنے والے فروعی اور ضمنی مسائل کو ہی اس طرح سے اجاگر کیا جاتا ہے کہ پوری قوم ان ہی ضمنی مسائل میں الجھ جاتی ہے ،پھر ہمارا ایک دانشور طبقہ توہین رسالت کے خلاف قانون کی مخالفت میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔

یہاں اس دانشور طبقہ کی سمجھ کا قصور ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس مسلہ کا حل قانون بدلنے میں ہے.. وہ بالکل بھی نہیں سوچتا کہ، یہ قانون بالکل درست اور مکمل قانون ہے ، اس قانون سے ملک میں کسی بد امنی اور فساد کا کوئی اندیشہ ہرگز ہرگز نہیں ہے، مسلمان چاہے نام ہی کا کیوں نہ ہو، خواہ اسکا ایمان کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، مگر وہ کبھی بھی، کسی بھی حالت میں، کسی بھی اللہ کے نبی، یا اور کسی مقدس ہستی کی شان میں گستاخی کا تصوربھی نہیں کر سکتا، اسلئے پاکستان میں کسی مسلمان کو اس قانون سے کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا، اسی طرح جو غیر مذہب اور اقلیتی قومیں پاکستان میں آباد ہیں، انکے لئے اس قانون سے کوئی خطرہ ایسے نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کے باسیوں کے لئے کسی بھی ملک کے قانون کو تسلیم کرنا لازم ہوتا ہے۔

دوم یہ حق تو کسی کو اخلاقی طور پہ بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے مذہبی تقدس کی حامل شخصیات کی توہین کرے، سوم یہ کے کسی بھی ملک کی اکثریتی آبادی کے جذباتی معاملوں میں شرارت کر کے فساد ڈلوانے کوشش تو یوں بھی بد ترین جرم ہے اور اسکی سخت ترین سزا ہونا بھی امن کے لئے لازم ترین ہے ـ لیکن ہوتا یہ ہے ہمارا دانشور اس قانون کے ہی خلاف پڑ جاتا ہےـ اور پھر اس قانون کے حمائت کرنے والے لوگ میدان میں آتے ہیں.ظاہر بات ہے کہ توہین رسالت کے خلاف قانون کا دفاع انکا مزہبی فریضہ ہے، اور وہ اپنی ساری دلیلیں مخالف دانشورں کو غلط ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں، انکو بھی یہ احساس ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ جو لوگ اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں ان میں سے بھی اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے. جنکے لئے ناموس رسالت انکی اپنی جان و مال سے بھی زیادہ اہم ہے یہ لوگ اگر اس قانون کی مخالفت کر رہیں کہ انکی نظر میں یہ کسی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کا.سبب بن رہا ہے.، انکی نیتوں میں کوئی فتور نہیں ہے لیکن اسکو کچھ اہم نکات کا شعور نہیں ہے ،اور ایسے یہ ان آپسی مباحثوں کے نتیجہ میں دو.گروپ بن جاتے ہیں اور پھر یہ گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ہی مصروف رہتے ہیں ان کی وجہ سے عام عوام بھی منتشر ہو جاتی ہے اور ایسے ایک نفرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ـ

ہمارا دشمن مافیا،بخوبی جانتا ہے کہ توہین رسات کے قانون کی بالادستی پوری مسلمان ملت کا ایمانی اور جزباتی ترین معاملہ ہے،دوسری طرف انسانی حقوق کی پاسداری اور صلہ رحمی اور انسانیت بھی اسلام کا بنیادی ترین جزو ہے، عام مسلمان اس سے بھی کنارہ کش نہیں ہو سکتاـ تو ایسے میں وہ مافیا اپناکھیل بڑی خوبصورتی سے کھیل جاتا ہےاور ہم سب ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں کود پڑتے ہیں ـ اس ساری سچویشن کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے . اور اس سے نکلنے کا فوری حل تو یہ ہے کہ ایسے کسی بھی ایشو کو میڈیا پہ ہر گز نہ اچھالا جائے، اگر خدا نخواستہ کوئی ایسا ایشو کہیں پیدا بھی ہو بھی جائے تو اس کے خلاف تادیبی ایکشن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لینے دیا جائے،، عدالت ملک کے آئین و قانون کے مطابق اسکا فیصلہ کرے، میڈیا اس معاملہ پہ بالکل خاموش رہے. دانشور اس پہ بالکل بھی بات نہ کریں، نہ تو کوئی قانون بدلنے کی بات کرے اور نہ ہی کسی کو اسکے دفاع کی ضرورت محسوس ہو، نہ تو کوئی سلمان تاثیر بننے کی کوشش کرے اور نہ ہی کوئی ممتاز قادری بننے کی ضرورت سمجھے۔

اور اس مسلہ کا مکمل حل یہ ہے کہ اس مافیا پہ اور ان حالات پہ گرفت کی جائے جو اس سارے سلسلہ کی بنیاد ہیں، لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک حکمران ایماندار اور زاتی مفاد سے زیادہ ملک و وملت کے لئے مخلص نہ ہوں، انکے ریکارڈ پہ کوئی ملک کو نقصان پہنچانے والا عمل نہ ہو، کوئی پانامہ کا تمغہ نہ سجا ہو، کوئی سوس اکاؤنٹ اور را سے تعلق نہ سجے ہوں، وہ ملک کو امریکہ یا روس کی بنانے کی کوشش میں شامل نہ رہے ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ملک کو امریکہ یا روس کی بنانے کی کوشش میں شامل نہ رہے ہوں، وہ اپنے ملک کے خلاف کبھی اندرا گاندھی اور کبھی مودی سے مدد مانگنے والے نہ رہے ہوں، نہ ہی انکا کبھی کسی مدرسوں اور مسجدوں میں دھماکے کرنے والوں اور خود کش حملے کرنے والوں سے کوئی تعلق رہا ہو،، اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہماری عوام اپنا لیڈر چننے کا میعار ایمانداری، تقوی اور حب الوطنی قائم نہیں کر لیتےـ اس لئے ہم سب کو ہی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنا ہی ہوگا، سوچئے گا ضرور۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply