پاکستان کی موجودہ صورتحال/امتیاز احمد

الیکشن ایک ایسا موڑ ہوتا ہے، جہاں یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں اب کم از کم دو سال آرام سکون سے گزر جائیں گے۔ سیاست اور ملک میں استحکام پیدا ہوگا، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے گی، سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑے گا۔ لیکن کل کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے ان سارے امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں صورتحال اتنی ہی بے یقینی کا شکار ہے، جتنی گزشتہ کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ واضح اکثریت کہیں نہیں ہے، اگر تھی بھی تو اب نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کا ووٹر انتخابات کے نتائج میں گڑ بڑ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دوبارہ اس نظام سے مایوسی اور اکتاہت کی طرف جا رہا ہے۔ یہ طبقہ احتجاج کے بعد ووٹ کے راستے سے تبدیلی کے نظریے سے بھی خالی ہاتھ لوٹتا نظر آ رہا ہے۔

نون لیگ ناخوش ہے، فوج کے ساتھ ہونے والی ڈیل میں ایک ہی رات کے دوران دراڑیں پیدا ہوئی ہیں، زرداری صاحب تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھ کے فلسفے پر گامزن ہیں۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی حکومت بن جائے، وہ غیر مستحکم رہے گی۔

ہو سکتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے پلان بی اور سی بھی بنا رکھا ہو، جو آئندہ چند روز یا ہفتوں میں سامنے آئے۔ ہو سکتا ہے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یہ اعلان کریں کہ ہم سب مل کر چلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کوئی سیاسی معجزہ ہو جائے، لیکن بظاہر موجودہ پلان اور موجودہ صورت حال پاکستان کی معاشی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال میں رتی برابر بہتری کی ضمانت فراہم نہیں کر رہے۔

اگر پلان یہی ہے اور یہی رہا تو آنے والے دنوں میں صورت حال میں کوئی خاص بہتری نہیں آئے گی۔ سرمایہ کار دور رہیں گے، پاکستانی اداروں کی ساری قوت اور صلاحتیں ملکی حالات سنبھالنے اور انہیں مینیج کرنے کے لیے صرف ہوں گی۔ بلوچستان اور افغانستان سے ملحق علاقوں شورش مزید سر اٹھا سکتی ہے۔ حالات ایسے ہوئے تو پاکستان عالمی اور علاقائی سیاست میں مزید بے اثر ہوتا جائے گا۔

پاکستان کی ترقی کے لیے اہم چیلنجز سیاسی استحکام اور ایک مضبوط جمہوری حکومت کے بعد شروع ہونے ہیں لیکن اس ملک کی ساری کی ساری توانائیاں گزشتہ کئی عشروں سے اندرونی سیاسی معاملات کو مینیج کرنے ہی میں خرچ ہو رہی ہیں۔ لہذا اصل مسائل اپنی جگہ وہاں کے وہاں کھڑے ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری اور مایوسی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔

ملک میں توانائی کا بحران مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہو پا رہا۔ معاشی ترقی اور نئی صنعتوں کا قیام جمود کا شکار ہیں۔ تعلیمی اور صحت کے مسائل دس سال پہلی والی سطح پر ہیں۔ ملک میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور برداشت کا فقدان ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں زراعت کو متاثر کر رہی ہیں لیکن ملک کے پاس ان سے نمٹنے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔ افراط زر کی شرح اتنی بڑھ چکی ہے کہ گزشتہ کئی عشروں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں جو اصل مسائل ہیں، جن کو حل کرنے سے عوام کی معیار زندگی بہتر ہوگا، وہ اپنی جگہ پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ اگر یہ حل نہ ہوئے تو معاشرے میں انتشار اور جرائم میں اضافہ ہوگا، قتل و غارت بڑھے گی، زندگیاں گزارنا مزید مشکل ہو جائے گا، نوجوانوں کی ملک سے ہجرت مزید تیز ہو جائے گی۔

ان تمام مسائل کو حل کرنے کا سفر سیاسی استحکام سے شروع ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ بنیاد ہی قائم نہیں ہو پا رہی۔

پاکستان میں سیاسی انتشار اور فوج کی سیاست میں مداخلت کم ہوں تو بیس، پچیس برس تک پاکستان ایک مضبوط معاشی پوزیشن میں آ سکتا ہے، یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، بڑی جلدی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ لیکن فی الحال ایسے اشارے نہیں مل رہے۔

فی الحال اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے تجربے اور پلان جاری رکھے ہوئے ہے۔ فی الحال پاکستان کا سیاستدان، فوج اور اشرافیہ اس ملک کے ساتھ مخلص نظر نہیں آتے۔ اگر مخلص ہیں بھی تو ان کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔

مجموعی طور پر یہ تحریر مایوس کر دینے والی ہے لیکن ملک کے طاقتور حلقے پرامید ہونے کی کوئی گنجائش چھوڑ بھی نہیں رہے۔ ہو سکتا ہے دو چار برس بعد کوئی روشنی نظر آئے یا ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو اور پاکستان میں سیاسی و معاشی حالات ایک دم درست سمت میں چلنا شروع ہو جائیں لیکن یہ ایک معجزہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply