حجاب ڈے مگر کیوں؟۔۔۔انعام الرؤف

جب آٹھ مارچ کو ویمن ڈے منایا گیا جو عورتوں کے حقوق کے متعلق تھاتو مذہبی حلقے کی طرف سے عورتوں کے حقوق کے بجائے،مارچ کرنے والوں  پر تنقید کی گئی،حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھاکہ جو حقوق اسلام نے دئیے ہیں ان کو بیان کیا جاتا۔جو تنقید کی گئی، اس میں یہ تھاکہ جن حقوق کو بیان کیا جاتا ہے کیا یہ  خواتین کے اصل مسائل نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے مسائل ہیں۔لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا حجاب ہمارے معاشرے کی خواتین  کا اصل مسئلہ ہے؟پھر خواتیں کے اصل مسائل کا ایک فہرست بھی تھما دیا گیا کہ کہ اگر یہ ہمارے معاشرے کے خواتیں کے لیے ہوتا تو اس میں یہ بیان ہوتے۔پوچھنا یہ ہے کہ آپ خود یہ مسائل بیان کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ سے خواتیں کے اصل مسائل کو بیان کرنے کا کریڈٹ عورت مارچ کونہیں جاتا؟ یہ بھی کہا گیا کہ ہمیں حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اسلام نے یہ حقوق چودہ سو سال پہلے دیئے ہیں سوال یہ کہ اسلام نے حیا اور حجاب کرنے کا حکم بھی چودہ سوسال پہلے دیا ہے تو پھر یہ دن  منانے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟

عورت مارچ پر تبصرہ دیتے ہوئے ایک خاتون نے لکھا کہ،سمجھ سے بالاتر ہے کون ہیں  یہ خواتین جنھیں سڑک پر آکر اپنے حقوق مانگنے پڑتے ہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ  ہے ہی فیمل سنڑرڈ معاشرہ۔۔ حجاب ڈے مناتے ہوئے اسی خاتون کو دیکھ کر خیال گزرا کہ پوچھوں،سمجھ سے بالاتر ہے کون ہیں یہ خواتین جو سڑک پر آکر حجاب اور حیا مانگتی  ہیں، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں  وہ تو ہے ہی با حیا اور با پردہ معاشرہ۔

میں ان مسائل کا تذکرہ نہیں کرتا جو ہمارے معاشرے میں پردے  کے نام پر موجود ہیں ،کہ پردے کے نام پر نہ مسجد جانے کی اجازت ہے، نہ تعلیم حاصل کرنے کی،نہ ملازمت کی۔ ان واقعات کو بھی نظر انداز کرتا ہوں جہاں  پردےکے نام پر رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی،خاتون ڈاکٹر  نہ ہونے کی صورت میں میل ڈاکٹر کو نہ دکھانے کی صورت میں مر جانا،وغیرہ وغیرہ۔میں ان مسائل کا تذکرہ بھی نہیں کرتا جہاں پردے کے نام پر خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی عورتوں کو محروم رکھا گیا،جہاں عورت کی آواز اور نام کو بھی پردہ قرار دیا گیا۔۔۔۔۔مولانا روح للہ نقشبندی فرماتے ہیں ،سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کو اپنی تصنیف پر نام لکھنے سے کیا مقصود ہوتا ہے۔اگر ایک مفید مضمون دوسری عورتوں کے کان تک پہنچانا ہے تو اس کے لیے نام کی کیا ضرورت ہے،مضمون تو بغیر نام کے بھی پہنچ سکتا ہے، پھر نام کیوں لکھا جاتا ہے۔ایک آفت نازل ہوئی ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں اخباروں میں مضامین  دیتی ہیں ، اور اس میں اپنا نام اور گلی اور مکان کا نمبر ہوتا ہے شاید اس لیے کہ لوگوں میں ان سے خط وکتابت میں ،میل ملاقات میں دقت نہ ہو۔نا معلوم ان کی غیرت کہاں اُڑ گئی اور نجانے ان کے  مردوں کی غیرت کہاں گئی؟۔مطالعہ کی اہمیت صفحہ نمبر ۴۱۴
یہ پڑھنے کے بعد ان ناموں پر غور کریں ،بنت الاسلام،بنت ِ حوا،زوجہ فلاں اور اُمِ  فلاں وغیرہ وغیرہ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں، اس لیے عورت کے نام کو بھی چھپانا چاہیے ۔۔معلوم نہیں یہ دلیل دینے والے حدیث کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جہاں  خواتین  کے بے شمار نام موجود ہیں۔ میں اس پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرتا، جب آنس  اسلام صاحب،اسلام میں پردے کے حقیقی مفہوم،کے نام سے اپنے کالم میں لکھتے ہیں  کہ”اسلامی علمیت میں پردے  کا حقیقی ومکمل مفہوم عورت کا باہر کی دنیا سے پردے  میں رہنا ہے۔۔

میں اس پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرتا جب مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہے کہ”عورت کا مسجد میں جا کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔فتوی عثمانی صفحہ نمبر ۱۷۴۔

میں اس پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرتا جب تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والی خاتون  پروفیسر ثریا بتول علوی لکھتی ہیں “خواتین کے لیے ایک پابندی یہ بھی تھی کہ میدان جنگ میں ان کی خدمات کا دائرہ اپنے خویش واقارب اور عزیزوں کی حد تک رہتا تھا”۔

ایک طرف ہمارے بہت سے علماء مانتے ہیں کہ اسلام میں خواتین  کے یہ یہ حقوق ہیں لیکن عملاً  ان حقوق کو فتنے کے زمانے کے نام پر معطل کر دیتے ہیں۔دیکھیے ٹھیک یہی دلیل مولانا مودوی دیتے ہیں  لیکن دوسرے الفاظ کے ساتھ،فرماتے ہیں “اگر اسلامی تہذیب اسی تہذیب کا نام جو محمدؑ نے سکھائی تھی تو آج کل کے میڈیکل کالجوں اور نرسنگ گاہوں اور ہسپتالوں میں  مسلمان لڑکیوں کو بھیج دینے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ان کو قبروں میں دفن کر دیا جائے۔رائج الوقت گرلز کالجوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے اور معلمات بننے کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔”خواتین اور دینی مسائل صفحہ نمبر ۵۸

سوال یہ  ہے کہ پردے  کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے  یا مخالفت کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے، نہ کہ لفظ پردہ دیکھ کر دفاع شروع کر دیا  جائے۔یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پردے  کے نام پر عورتوں کو خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی محروم رکھا  جاتا ہے لیکن ہمارے مذہبی لوگ لفظ”پردہ” کے   اشتراک کی وجہ سے اس کا  دفاع شروع کر دیتے ہیں،یہ دیکھے بغیر کہ یہ پردہ خود اسلام کے مطابق ہے کہ نہیں؟ایک عورت کوگھر میں قید کرکے تعلیم،ملازمت،مسجد،جائز تفریح سے محروم کرنے والا بھی اس کو پردے  کا نام دیتا ہے، جب کہ دوسری طرف ڈاکٹرراحیلہ قاضی کو با پردہ کہا جاتا ہے جب کہ وہ پارلیمنٹ سے لے کر میڈیا تک ہر جگہ موجود ہے۔بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے ہاں پردے  کا جو تصور رائج ہے اس کے مطابق تو پردہ ڈے منانے والے بھی بے پردوں  میں شمار ہوتے ہیں۔

آخری سوال یہ کہ اسلام میں خواتین  سے متعلق بہت سے احکامات موجود ہیں ،جن میں سے ایک پردہ کرنا ہے، سوال یہ ہے کہ ان تمام میں پردے  کو اتنی اہمیت دینے کی کیا وجہ ہے؟، وہ بھی اس ملک میں جہاں اکثریت پردہ کرتی ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن دوسری طرف میراث میں حصہ شاید ہی کسی کو ملتا ہو لیکن اس پر خاموشی۔پردہ نہ کرنے والے چند فیصد ہو سکتے ہیں جبکہ میراث سے محروم،مرضی کی شادی اور مسجد جانے سے تو خود منصورہ میں بھی خواتین  محروم ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا ؟عزت کے نام پر ہر سال ہزار سے زائد قتل ہوتی ہیں لیکن ان پر خاموشی،کیا ان کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ کشمیر یا فلسطین میں پیدا نہیں ہوئے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”حجاب ڈے مگر کیوں؟۔۔۔انعام الرؤف

  1. میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    تزئین حسن

    لوگ کتابوں پر تبصرے لکھتے ہیں میرا دل چاہ رہا ہے، میں چترال کے اس نوجوان کی نا پختہ تحریر پر تبصرہ لکھوں جسکا عنوان ہے، “حجاب ڈے مگر کیوں؟”

    تین ماہ پہلے میرے ایک مضمون پر چترال سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے کچھ اعتراض اٹھائے، کہ آپکا پردے کا تصور تو خود آپکے ممدوح علماء کے پردے کے تصور پر پورا نہیں اترتا-

    دوسرے اسکا کہنا تھا کہ آپ پڑھی لکھی دین دار خواتین صرف اپنے طبقے کی عورت کو سامنے رکھ کر لکھتی ہیں- پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہ رہی ہے اور وہاں کیا ہو رہا ہے، وہاں کی عورت کے اصل مسائل کیا اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں-

    اسکے بعد سے میں دیکھتی رہی ہوں کہ یہ نوجوان مسلسل خواتین کے اصل حقوق، جو اسلام نے انکو دیئے ہیں، پر آواز اٹھانے میں لگا ہوا ہے- پتہ نہیں کیوں مجھے اسے دیکھ کر قران اٹک اٹک کر پڑھنے والے کیوں یاد آتے ہیں- شاید اس لئے کہ میں بھی اسی اسٹیج سے گزری ہوں جب دنیا سے مختلف سوچ اور کہنے کے لئے بہت کچھ ہو، لیکن اظہارکا سلیقہ نہ ہو- اور ایسے موقع پر منہہ کھولنا آسان کام نہیں- مگر یہ کر گزرتا ہے-

    میری طرح یہ بھی اپنے آس پاس ہونے والی نا انصافیوں پر زیادہ کڑھتا رہا ہے، اسی لئے اپنوں کی گا لیاں بہت کھاتا ہے- میں نے خود اپنے ذاتی فیس بک پیج پر بزعم خود اسے مذہب کے ایک ورژن کا دفاع کرنے والوں کو اسے گندی گندی گالیاں دیتے دیکھا ہے اور اسکی رد عمل میں متانت بھی ملا حظہ کی ہے-

    اسکا تعلق صوبہ کے پی کے دور دراز علاقے چترال سے ہیں لیکن انٹرنیٹ ایج کا شکریہ کے اسکی نظر ماشاللہ کراچی سے منصورہ اور اسلام آباد سے گلگت بلتستان پاکستان کے ہر کونے میں ہے- دینی حلقوں پر بہت گہری نظر ہے- مطالعہ خوب ہے- درد مندی سے تجزیہ کرتا ہے- بات کہنے کا سلیقہ شاید کم! مگر دلیل سے بات کرتا ہے- جماعت اسلامی کے ایک خاندان سے تعلق ہے اورمیری طرح سچ بولنے کی بیماری-

    اس نے جو سوال اٹھائے اور بجا طور پر میرے دل میں بھی یہ سوال موجود ہیں وہ یہ کہ خواتین مارچ پر یہ کہا گیا کہ خواتین کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسکا کہنا ہے کہ پھر حجاب مانگنے کے لئے سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت؟

    اسکا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو چار دیواری میں رکھنا چاہتا ہے- دوسری طرف انہیں جماعتوں کی خواتین پارلیمنٹ اور میڈیا ہر جگہ موجود ہیں- دوسری طرف پردے کے نام پرعورت کو خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے علاج کی اجازت بھی نہیں ملتی- لیکن مذہبی طبقات حضرات ان مسائل پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتے-

    کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:

    “جب آٹھ مارچ کو ویمن ڈے منایا گیا جو عورتوں کے حقوق کے متعلق تھاتو مذہبی حلقے کی طرف سے عورتوں کے حقوق کے بجائے،مارچ کرنے والوں پر تنقید کی گئی،حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھاکہ جو حقوق اسلام نے دئیے ہیں ان کو بیان کیا جاتا۔ ”

    “خواتین مارچ پر جو تنقید کی گئی، اس میں یہ تھاکہ جن حقوق کو بیان کیا جاتا ہے کیا یہ خواتین کے اصل مسائل نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے مسائل ہیں۔لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا حجاب ہمارے معاشرے کی خواتین کا اصل مسئلہ ہے؟

    پھر خواتیں کے اصل مسائل کی ایک فہرست بھی تھما دی گئی کہ یہ ہمارے معاشرے کی عورت کے اصل مسائل ہیں- اگر یہ مارچ ہمارے معاشرے کے خواتیں کے لیے ہوتا تو اس میں یہ بیان ہوتے۔

    پوچھنا یہ ہے کہ آپ خود یہ مسائل بیان کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ سے زیادہ خواتیں کے اصل مسائل کو بیان کرنے کا کریڈٹ عورت مارچ کونہیں جاتا؟

    یہ بھی کہا گیا کہ ہمیں حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اسلام نے یہ حقوق چودہ سو سال پہلے دیئے ہیں سوال یہ کہ اسلام نے حیا اور حجاب کرنے کا حکم بھی چودہ سوسال پہلے دیا ہے تو پھر یہ دن منانے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟

    “عورت مارچ پر تبصرہ دیتے ہوئے ایک خاتون نے لکھا کہ،سمجھ سے بالاتر ہے کون ہیں یہ خواتین جنھیں سڑک پر آکر اپنے حقوق مانگنے پڑتے ہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ ہے ہی فیمل سنڑرڈ معاشرہ۔ حجاب ڈے مناتے ہوئے اسی خاتون کو دیکھ کر خیال گزرا کہ پوچھوں،سمجھ سے بالاتر ہے کون ہیں یہ خواتین جو سڑک پر آکر حجاب اور حیا مانگتی ہیں، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ تو ہے ہی با حیا اور با پردہ معاشرہ۔”

    “میں ان مسائل کا تذکرہ نہیں کرتا جو ہمارے معاشرے میں پردے کے نام پر موجود ہیں ،کہ پردے کے نام پر نہ مسجد جانے کی اجازت ہے، نہ تعلیم حاصل کرنے کی،نہ ملازمت کی۔ ان واقعات کو بھی نظر انداز کرتا ہوں جہاں پردےکے نام پر رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی،خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کی صورت میں میل ڈاکٹر کو نہ دکھانے کی صورت میں مر جانا،وغیرہ وغیرہ۔میں ان مسائل کا تذکرہ بھی نہیں کرتا جہاں پردے کے نام پر خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی عورتوں کو محروم رکھا گیا،جہاں عورت کی آواز اور نام کو بھی پردہ قرار دیا گیا-”

    “یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پردے کے نام پر عورتوں کو خود اسلام کے دیئے گئے حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے مذہبی لوگ لفظ”پردہ” کے اشتراک کی وجہ سے اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں،یہ دیکھے بغیر کہ یہ پردہ خود اسلام کے مطابق ہے کہ نہیں؟ایک عورت کوگھر میں قید کرکے تعلیم،ملازمت،مسجد،جائز تفریح سے محروم کرنے والا بھی اس کو پردے کا نام دیتا ہے-”

    “آخری سوال یہ کہ اسلام میں خواتین سے متعلق بہت سے احکامات موجود ہیں ،جن میں سے ایک پردہ کرنا ہے، سوال یہ ہے کہ ان تمام میں پردے کو اتنی اہمیت دینے کی کیا وجہ ہے؟، وہ بھی اس ملک میں جہاں اکثریت پردہ کرتی ہے۔”

    “لیکن دوسری طرف میراث میں حصہ شاید ہی کسی کو ملتا ہو لیکن اس پر خاموشی۔ پردہ نہ کرنے والے چند فیصد ہو سکتے ہیں جبکہ میراث سے محروم،مرضی کی شادی اور مسجد جانے سے تو خود منصورہ میں بھی خواتین محروم ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا ؟عزت کے نام پر ہر سال ہزار سے زائد قتل ہوتی ہیں لیکن ان پر خاموشی،کیا ان کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ کشمیر یا فلسطین میں پیدا نہیں ہوئیں ؟”

    الله اس نوجوان کو اس جہاد میں استقامت دے- یقین نہیں آتا کہ پاکستانی معاشرے میں دینی طبقات سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان خواتین کے حقوق کے لئے اتنا حساس ہو سکتا ہے- یہ نونجوان جن لوگووں میں گھرا ہوا ہے وہاں یہ باتیں کفر کے زمرے میں آتی ہیں- (مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟)-

  2. @
    بلاشبہ اہم نکتے ذکر کیے ہیں۔ بہترین سوال اٹھائے ہیں۔ کہ جب پہلے طبقے کا یوں سرعام حقوق طلبی کرنا غلط تھا تو دوسرے طبقے کا حیا طلبی یا یہ باور کرانے نکلنا کہ ہمیں تو حقوق اسلام نے اتنے سال قبل دے دیے تھے۔ کیسے درست ہو سکتا ہے۔ کریڈٹ اس خاتون مارچ کو جاتا بھی ہو تو میں یہ کہوں گا کہ ان خواتین کو خواتین کے اصل مسائل کا علم تھا نہ ادراک۔ ہاں بینرز اٹھا کر ان خواتین کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کیا۔ حقیقی مسائل کی فکر ہوتی تو صرف آوازے نہ بلند کیے جاتے اگلا قدم اٹھایا جاتا۔ اربابِ اختیار پر زور ڈالا جاتا کہ حقوق نہ دینے والے کو قانون پکڑ میں لائے۔ آسان ترین نظام وضع ہوتا کہ خاتون شکایت درج کرا سکے اور پھر اپنے وڈیروں سے محفوظ بھی ہے۔ وگرنہ آوازوں کو بند کرنا عام روش ہے۔ ہاں اچھی بات یہ کہ ایک آواز تو اٹھائی جس میں تحقیر تھی۔ بہرحال اٹھائی تو، ہم کہہ سکتے ہیں۔ لیکن دوسرا طبقہ جو یہ کہتا چلا آیا ہے کہ خواتین کو حقوق اسلام نے دے رکھے ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ جو حقوق دے رکھے ہیں کہاں ہیں؟ ان حقوق پر مرد نام کی جنس چڑھے بیٹھے ہیں۔ غصب کر رکھے ہیں۔ اس پر آواز اٹھانا یا وہ ذکر کرنا پسند کریں گے؟ جواب خاموشی ملے گی۔ (دونوں طبقات مجھے اپنی اپنی انتہاؤں پر لگے۔ اصل مقصد سے کنارے پر، جیسے مسائل سے سروکار نہ ہو بس ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہو یا بدنام کرنا ہو وغیرہ۔) اگر دوسرا طبقہ وہ حقوق جو اگر شریعت نے دیے ہیں ان کا پرچار کرتے عورت کو حصہ دیں۔ وراثت کا حصہ ہے۔ پسند کی شادی ہے۔ بچپن میں نسبت طے ہوئی اب بڑی ہو کر اسے اختیار ہے۔ اپنے مذہب کی اجازت دیکھتے ہوئے ہر قدم اٹھانا ہے۔ (یہاں مذہب کی اجازت کی وہ تشریح نہ ہوگی جو ہر مسلک کے علماء نے اپنی سوچ کے مطابق کی ہو۔ بلکہ قرآن کریم دیکھا جائے گا)۔ قبر میں دفن کر دیا جائے۔ مکروہ ہے فلاں ہے فلاں ہے وغیرہ۔ اور جو یہ کہتے کہ عورت علاج عورت سے کرائے لیکن عورت پڑھے نہیں تو کیسے ممکن ہوگا۔ ذوالفقار احمد نقشبندی لکھتے ہیں۔ صنفی تقاضوں کو سامنے رکھتے خواتین کے لیے خواتین طبیبوں کی ضرورت ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہماری خواتین میڈیکل سائنسز میں اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ اسلام نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے ملی فریضہ و عبادت سمجھتا ہے۔ لیکن یہ بات عام طور پر نہیں کی جاتی۔ یہ جو اجازت ہے یہ چھپا کر رکھی گئی ہے۔ سب حرام ہے ہاں گر اپنی بیٹی بیٹا ہوں تو کھوتا کھرکا سب حلال ہوجاتا ہے۔ یہاں کچھ نقطے سمجھ نہیں آئے کہ ان کو ذکر کا مطلب کیا ہے، یا کس معنی میں بیان کیے۔ یا صرف ایک ہی طرح کے اقتباسات اٹھا کر بات کرنا کچھ بھایا نہیں۔ انہی کے دیگر اقوال جن پر سوال اٹھایا موجود ہوں گے۔ انہیں اٹھا کر دکھا دیا جائے؟ یہ تو شاید اصل سے دور جانے والی بات ہو۔ ہاں البتہ سوال اچھے ہیں۔ طریق کچھ دوسرا ہو۔ بہرحال روح اللہ صاحب کا جو اقتباس ذکر کیا اب خدا جانے روح اللہ صاحب غیرت کیا سمجھتے ہیں۔ کیا گلا گھونٹ کر مار دیا جائے؟ یا اس غیرت کے کیا معنی ہوں گے جو وہ جھنجھوڑ کر پوچھ رہے ہیں۔ پردہ کسی شیے کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ رکاوٹ بنا دی گئی ہے۔ اور جب حقوق طلبی کا معاملہ آتا ہے تو ہم آوازیں بند کر دیا کرتے ہیں یہی ہمارا کلچر ہے شاید۔ جو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سوال کہ پردے کو ہی موضوع بحث لانے کا مقصد کیا ہے جب کہ دیگر معاملات پرنظریں چرائی جاتی ہیں تو جناب! پردے میں آوازیں بند رہیں گی۔ خبر نہ ہوگی کہ بھائی نے بہن کا حصہ مارا۔ باپ نے بیٹی کو وراثت میں حصہ نہ دیا۔ سو زبانیں بند رہیں گی اور اپنا پگ اونچا رہے گا۔ اہم سوال ہے کہ ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا اسی انداز سے جس طرح دیگر پردہ وغیرہ پر آوازے بلند کیے جاتے ہیں۔ یہ مذہبی طبقہ کی کمزوری ہے۔ انہیں گر کہہ دیں تو وہ کتب اٹھا کر دکھا دیتے ہیں کہ دیکھو یہ ہمارے فلاں امام فلاں پیشوا نے لکھا ہے۔ وراثت میں حق دینا چاہیے۔ اوہ بھئی لکھ دیا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے پردے پر، صدقے پر، نمازوں پر ایک طویل تقریر کرتے ہو چاہیے یہ کہ ہر جمعہ نہیں تو ہفتے میں دو بار کم از کم لوگوں کے مجمع میں وعیدیں و فضائل سنا کر بتائئں کہ وراثت میں حصہ نہ دینا کیسا ہے۔ ایسے ہی یہ یہ حقوق جو ہم نے سلب کر رکھے ہیں یہ دینے ہیں۔ وغیر ذلک۔ شاباش ہے اس نوجوان کو کہ وہ باتیں جو کرنی منع ہیں کر دی ہیں۔ خدا استقامت دے۔ اور یوں ہی بند آوازوں کو کھولنے کا سبب بنے۔

Leave a Reply