گوگی گارڈن۔ایک پریم کتھا(1)۔۔۔۔۔ڈاکٹر کاشف رضا

آج جمعے کا مبارک دن تھا۔ کل سے عیدِ قربان کی چھٹیاں ہوجانی تھیں۔ طیبہ آج بہت پریشان تھی۔ اس کا دل یہ سوچ سوچ کر بیٹھا جا رہا تھا کہ کل کے بعد اگلے پانچ دن وہ حنان کو نہیں دیکھ پائے گی۔ اس کا چہرہ مرجھائے ہوئے گلاب کی طرح سوکھا ہوا تھا۔ آج کلاس میں وہ اور حنان ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ انہیں علم تھا کہ کل چھٹیوں پر جانے سے پہلے آخری دن ہو گا۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کو اپنی آنکھوں میں اتار رہے تھے۔

لیکن شام سے پہلے ہی ان کے دل اداسی کے سمندر میں ڈوبتے نظر آرہے تھے۔

حنان ہاسٹل رہتا تھا۔ اور عید پے گھر جانا اس کی مجبوری تھی۔ اس کا دل کرتا تھا کہ عید بھی ادھر طیبہ کے شہر گزارے۔ مگر ایسا کرتا تو شاید گھر والے اسے کبھی گھر نہ آنے دیتے۔ وہ بھی آج اداس لگ رہا تھا۔ اس کا دل نہیں لگ رہا تھا کسی بھی چیز میں۔ اسی اداسی میں حنان نے آج نماز جمعہ میں دو فرض ہی ادا کیے ورنہ وہ عموماً بقیہ  رکعتیں بھی پڑھتا تھا اور پڑھ کے اپنے اور طیبہ کے شاندار مستقبل کے لیے دعا کرتا۔

وہ دونوں تو کبھی اتوار بھی ایک دوسرے کے بنا نہیں گزار پاتے تھے، یا تو وہGOGI GARDEN کو معطر کرتے تھے یا اگر وہاں لائیٹس زیادہ ہوتی تھیں تو       rose garden        میں جلوہ افروز ہوتے تھے۔ ایسی تھی طیبہ اور حنان کی محبت۔

اگر با امر مجبوری مل نہ  مل پاتے تھے تو ویڈیو کال لازمی کرتے تھے۔ ویڈیو کال کے دوران بھی طیبہ دوپٹہ پہننا کبھی نہ بھولتی۔ یہ اس کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کال پر آیت اور نعتیں یاد کروایا کرتے تھے۔ ایک پُرنور اور روح پرور سماں بندھا رہتا تھا ویڈیو کال پہ۔۔

4 بجے کا وقت تھا۔ طیبہ بہت اداس تھی۔ اس نے لنچ بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے حنان کو ٹیکسٹ کیا:
“جانو!”

“جی جانو ! ” حنان نے فوراً ایسے ریپلائی کیا جیسے وہ اس کے ٹیکسٹ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔

“فیلنگ سیڈ ”

“کیا ہوا جانو”

” کل چھٹیاں ہو جائیں گی۔
میں دیکھ نہیں پاؤں گی آپ کو”

” اوہ۔۔۔ جانو بس تین چار دن کی تو بات ہے”

“پتا نہیں۔
دل بہت اداس ہے حنان”

” اوہ مِیلی جان”

“شام کو ملیں؟ ” طیبہ نے دل کی بات کردی۔

حنان نے ٹیکسٹ سین کر لیا تھا۔ پر اس نے فوراً جواب نہیں دیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا شاید۔
“ہاں بے بی ضرور، کیوں نہیں۔
کہاں ملیں ؟ GOGI GARDEN !” حنان پوچھ رہا تھا۔

طیبہ مسکرا رہی تھی۔

“نہیں حنان    Gogi     نہیں۔ پچھلی مرتبہ جب ہم ملے تو انعم نے دیکھ لیا تھا۔
اس نے پھر ساری کلاس کو بتا دیا۔
مجھے اچھا نہیں لگتا حنان ایسےGOGI GARDEN میں ملنا”

“اوہ اوکے۔ پھر کہاں ملیں ؟ ”

“شاہجہاں گرِل ”

حنان سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے پاس کل گھر جانے کے لیے کرائے کے پیسے تھے۔
“ہاں جانو ٹھیک ہے۔
نو ایشو”

“اوکے جانو رات 8 بجے  Shahjahan Grill, انشا اللہ”

طیبہ خوشی سے چہک اٹھی۔ وہ یہ سوچ کر شکر  کرتی تھی کہ حنان جیسا فرشتہ اس کی زندگی میں آیا۔ وہ شکرگزاری والے جذبات سے مچل رہی تھی کہ اچانک اس کی امی اس کے کمرے میں آئیں۔
“بیٹا، کھانا تو کھا لو۔ تھوڑا سا ہی”

“ماما! کوئی بات نہیں۔ شام کو ایک سہیلی کی       Birthday         ہے۔ وہ سیلیبریٹ کرنی ہے شاہجہاں گرل پہ ۔”
“اچھا بیٹا، چلو اچھے سے سیلیبریٹ کرنا اور واپس وقت پر آجانا۔ ”

طیبہ  مسرور تھی اب۔  وہ آج رات حنان کو جی بھر کے دیکھ سکتی تھی۔

” وہ بلیک ڈریس پہن کے آنا۔ ” حنان کا ٹیکسٹ آیا۔

“اوکے جانو ”

“اور پلیز پورا نقاب کرکے آنا۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی اور کی منحوس نظر آپ پر پڑے”

یہ ٹیکسٹ پڑھتے ہی طیبہ کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو آگئے۔ اتنا نیک تھا حنان۔ ایسے فرشتہ صفت انسان کا ملنا طیبہ کے لیے نعمتِ خداوندی تھا۔ اس نے “جی جانو ضرور” کہتے ہوئے آدھا درجن دل والی   emojis        دے کے حنان کو ریپلائی کیا۔

اتنی  محبت کرتھا تھا حنان۔ وہ چاہتا تھا طیبہ اس کے علاوہ کسی سے بات نہ کرے ،نہ کسی کی نظر اُس پر پڑے۔ باقی تین Girlfriends کے لیے بھی اس نے یہی اصول بنایا ہوا تھا۔

حنان کی چار گرل فرینڈز تھیں بالکل چار شرعی بیویوں کی طرح۔ وہ بہت حساس اور نازک طبیعت کا مالک تھا۔ اس کو ڈر تھا کہ کہیں گرل فرینڈز کی تعداد 4 سے کم ہو تو Relationship حرام نہ ہو جائے۔ اتنا شریعت پسند اور جنتی تھا طیبہ کا حنان۔

“اچھا لپ اسٹک بھی وہی والی لگا کے آنا جو پہلی        Date        پہ  لگا کے آئی تھیں۔” حنان کا ٹیکسٹ تھا۔

“کاشف ! آپ بھی نا  ” طیبہ نے خوشی سے جھوم کر جواب دیا۔

طیبہ کو         Nibbi       والی       memes       اتنی پسند تھیں کہ کبھی کبھار حنان کو کاشف پکار کے اپنے             Nibbi       ہونے کا اقرار و اظہار کیا کرتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

ڈاکٹر کاشف رضا
کاشف رضا نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ وہ اپنی شستہ زبان،عام فہم موضوعات اور انوکھے جملوں سے تحریر میں بے پایاں اثر رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں خصوصاً نئی نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply