مدارس حکومت کی جھولی میں۔۔۔۔ خلیل اللہ کرَکی

دو تین ہفتوں سے حکومت کی  وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ میٹنگ چل رہی ہے۔ یہ میٹنگ دلچسپ بھی ہے اور انتہائی پریشان کن بھی, کیونکہ اس میں اگر ایک طرف بھائی   چارگی کی جھلک نظر آرہی ہے تو دوسری طرف مدارس کے ختم ہونے کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔

تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے, کہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم اہل مدارس کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھیں ۔ان کی اگر اکنامیکل پریشانیاں ہوں  یاطلبہ کے مستقبل کی پریشانیاں ہوں  ،تو یہ سب پریشانیاں حکومت حل کریں گی۔ بس اتنا ہو کہ مدارس حکومت کےزیرِ  سایہ ہوں ۔ باقی علما  کرام خود ان طلبہ کا سلیبس  تیارکریں ، خود پڑھائیں, خود امتحان لیں ۔ ہم بس چند جدید مضامین پر مشتمل کتابیں اور ان کو پڑھانے والے اساتذہ فراہم کریں گے  اور اس کا ایک بورڈ ہو گا, جس کا نام ” فیڈرل بورڈ” ہوگا۔

تصویرکا ایک رخ تو یہ ہے, کہ حکومت کا یہ مطالبہ اب سے نہیں بلکہ کافی عرصے  سے ہے۔9/11کے بعد سے یہ ڈرامہ چل پڑا ہے۔ آج کے حکمران چاہتے  ہیں  کہ پاکستان کے مدارس کو نصاب کے ذریعے سے کھوکھلا کر سکے۔ “مدارس ” کا نام ختم کر کے “فیڈرل ایجوکیشن سنٹر” رکھ دے۔ تاکہ مدرسے کا تصور ختم ہو جاۓ۔خود انہوں نے تصریح کی ہے کہ ” مدارس سے ڈاکٹرز اور انجینئرز نہیں نکل رہے ہیں” کبھی کہا جاتا ہے کہ ان میں فرقہ وارانہ کتابیں پڑھائی  جاتی ہیں ۔ میں ان سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا کسی یونیورسٹی سے کوئی   عالم دین نکلا ہے؟ یا کم از کم یہ بتائیں کہ کسی میڈیکل یونیورسٹی سے کوئی  انجینئر  یا کسی انجینئرنگ یونیورسٹی سے  کوئی دماغ کا ماہر ڈاکٹر نکلا ہے۔ اگر جواب ” نہیں “میں ہے تو یہ سوال بھی اس فضول سوال کی طرح ہے کہ” کسی مرد نے ابھی تک کوئی بچہ کیوں نہیں جنا”؟۔۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ کہ معاشرے نے عالم دین کو تین کام سپرد کیے ہے (١۔نماز پڑھانا ٢۔نماز جنازہ پڑھانا ٣۔ نکاح پڑھانا) باقی کسی کام کو دینے کے لیے  تیار نہیں۔ آج تک کسی نے دکھایا کہ آج   جنازہ لیٹ ہے, میت رکھ دو کیونکہ مولوی صاحب احتجاج پر ہیں ،کہ اس کی تنخواہ کم ہے۔ اہل مدارس تو خود اتنے قابل ہوتے ہیں کہ آٹھ سالہ کورس کے ساتھ ساتھ B.A اور M.A کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ کیا کسی ڈاکٹر نے آج تک اپنے دورانیہ تعلیم میں شہادةالعالمیہ کی سند حاصل کی ہے ؟اب تو حالت یہ ہے کہ خود HEC نے شہادة العالمیہ کی سند کو M.A (اسلامیات/عربی) کے برابر تسلیم کیا ہے۔ لیکن جب علما ٕ NTS پاس کر کے viva کیلئے بیٹھتے ہیں تو ان کو بڑے واشگاف الفاظ میں کہا جاتا ہے کہ” sorry this certificate is not allowed” کوئی  M.A کی ڈگری لاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ اس وقت حکومت کی غیرت کہاں مر جاتی ہے۔ کہ خدا کیلئے ان علما ٕ کو اپنا حق دے دو۔ خود ان کی یونیورسٹیوں کے طلبہ آۓ روز سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور دردمندانہ طور پر مطالبات کرتے ہیں کہ خدارا ہمیں اپنی تعلیم کے مطابق ملازمتیں دے دو, ہم اس ملک کے باشندے ہیں۔ تعلیم یافتہ جوان نشہ آور انجکشن لگواتے ہیں, خودکشیاں کرتے ہیں۔ کیا آپ نے ان کے مسائل حل کر دیے کہ اب مدارس کی فکر دامن گیر ہو گئی۔
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے

آخری بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ” نصاب میں ردوبدل “۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔”خدا کےلیے  ان مدارس کو ان ہی کے  حال  پر  چھوڑ دو, میں سمرقند اور بخارا دیکھ کر آیا ہوں”۔ مخلوط نظامِ تعلیم کا تجربہ تو ہمارے اسلاف نے بہت پہلے ” ندوةالعلما ” کی صورت میں کیا ہے۔ جس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ میں تو کہتا ہوں کہ مدارس اور یونیورسٹیز کے بنیادی مقاصد میں فرق ہے۔
مدارس کا مقصد ” ذات کی تکمیل , اعلیٰ  انسانی اوصاف اور ان کے ذریعے ملک وملت کی خدمت کیلئے تربیت یافتہ افراد تیار کرنا ہے۔” جب کہ یونیورسٹیز کا مقصد ” مال و دولت اور عزت واقتدار کا حصول” ہے۔تعلیمی درسگاہوں میں بار بار اقتصادی فوائد بیان کرنا تعلیم کا اصل مقصد ختم کر دیتا ہے پھر وہاں مادہ پرست  سوچ جنم لیتی ہے۔

علمی لحاظ سے تو اس خطے میں کم درجے کے لوگ نہیں ہیں۔ سوال تو علم کےاستعمال اور تمدّن ومعاشرت میں ترقی کے علاوہ آزادی و غلامی کا ہے۔ جس کی طرف بہت کم لوگ توّجہ دیتے ہیں۔ یہ زمین بہت مردم خیز ہے۔ اس سے علم و فضل کے چشمے پھوٹتے ہیں, مگر افلاس کی ریتی اور مصائب کے ملبوں میں دب کر رہ جاتے ہیں,اور یہ بات اغیار خوب سمجھتے ہے۔ تو بات اصل آزادی وغلامی کی ہے۔ دنیاوی درس  گاہیں تو پہلے سے ذہنی غلام بن چکی ہیں۔ ان کی زبان, چال چلن, نصاب اور وضع قطع سب اغیار کا ہے۔ لیکن اہل مدارس ہی ہیں  کہ وہ ان بدمعاشوں کی تہذیب و تمدّن اور ان کی غلامی کو قبول کرنے کیلئے کسی بھی صورت  تیار نہیں۔ اور اغیار مختلف طریقوں سے اہل مدارس کو ورغلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا حکومت سے درخوست ہے کہ اپنی ہمدردیاں اپنے پاس رکھےاور مدارس کو اپنے ہی حال پر چھوڑ دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا مرے حال پہ سچ مچ غم تھا قاصد
تو نے دیکھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply