پیالی میں طوفان (9) ۔ نانبائی/وہاراامباکر

بیکری کے سکول میں آپ کو بتایا جائے گا کہ اچھی روٹی بنانے کا راز کیا ہے۔ اور یہ راز ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کو اطالوی روٹی بنانی سکھائی جا رہی ہے۔ تازہ خمیر اور پانی کو آٹے اور نمک میں ڈالا اور گوندھنا شروع کیا۔ گلوٹین وہ پروٹین ہے جو اس کو پلاسٹک بناتی ہے اور اسے شکلوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
اس کو گوندھتے وقت اس کا فزیکل سٹرکچر بدل رہا ہے۔ خمیر (yeast) زندہ جاندار ہے جو کہ شوگر کو خمیرہ کر رہا ہے۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنا رہا ہے۔ گندھے آٹے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بلبلے ہیں جو کہ بائیولوجی کا پراڈکٹ ہیں۔اور ان کی وجہ سے یہ rise ہو گا۔ جب یہ پہلا مرحلہ ہو گیا تو اسے تیل میں نہلایا گیا اور یہ رائز ہوتا رہا۔
خمیرہ ہونے کے ہر ری ایکشن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے دو مالیکیول بنتے ہیں۔ یہ چھوٹا مالیکیول ہے جو کہ عام کمرے کے درجہ حرارت پر اتنی توانائی رکھتا ہے کہ گیس کی صورت میں پھرتا رہتا ہے۔ جب یہ بلبلے میں داخل ہوا تو اس جیسے بہت سے اور مالیکیول ہیں۔ یہ گھنٹوں تک ان کے ساتھ ٹکریں مارنے والی کھیل کھیلتا رہے گا۔ توانائی ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی رہے گی۔ اور جب یہ مالیکیول بلبلے کی دیوار سے ٹکرائے گا تو یہ اسے دھکا دے گا۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ بلبلے بڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیول زیادہ ہوتے ہیں، بلبلے کا سائز بھی۔
فزسسٹ کی طرح نانبائی کو بھی یہ پرواہ نہیں کہ کونسے والے مالیکیول کس رفتار سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ شماریات کا کھیل ہے۔ کمرے کے درجہ حرارت اور پریشر پر 29 فیصد مالیکیول 350 سے 500 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار کے بیچ میں سفر کر رہے ہیں۔ کونسے والے؟ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب نانبائی نے گُندھے آٹے کو اٹھایا۔ اسے کھینچا۔ اور اس کی تہہ بنائی۔ ایک تہہ کے اوپر دوسری بنائی۔ اب مقصد ان تہوں کے درمیان ہوا کو پھنسا لینا ہے۔ اگلے دو گھنٹوں میں یہ مزید رائز ہوا اور اس کی تہیں بنائی گئیں اور تیل ڈالا گیا۔ یہ اوون میں ڈالے جانے کے لئے تیار ہے۔ اب ہوا نے جادو دکھانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوون کے اندر اسے حرارت کی توانائی مل رہی ہے۔ پریشر تو وہی ہے لیکن درجہ حرارت یکایک 25 ڈگری سے بڑھ کر 250 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ (کیلون کے سکیل پر یہ دگنا ہو گیا ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالیکیول زیادہ رفتار پکڑ رہے ہیں۔
اور یہاں پر ایک بات دلچسپ ہے۔ کسی انفرادی مالیکیول کا کوئی بھی درجہ حرارت نہیں ہوتا۔ گیس (جو کہ مالیکیول کا مجموعہ ہے) اپنا درجہ حرارت رکھتی ہے لیکن انفرادی مالیکیول نہیں۔ گیس کے درجہ حرارت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے مالیکیولز میں اوسطاً کتنی حرکی توانائی پائی جاتی ہے۔ جبکہ انفرادی مالیکیول ٹکرا کر کبھی تیز ہو جاتا ہے، کبھی سست پڑ جاتا ہے۔ اس کے لئے توانائی ہر وقت بدل رہی ہے۔
درجہ حرارت صرف شماریات کا کھیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی تیزی سے یہ مالیکیول بلبلے کی دیوار سے ٹکرائیں گے، یہ زیادہ پریشر پیدا کریں گے۔ اور اوون میں جا کر ان کو زیادہ توانائی مل گئی ہے۔ ان کی اوسط رفتار میں پچاس فیصد اضافہ یو گیا اور یہ زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ہر بلبلہ پھیل رہا ہے۔ یہ بلبلے خواہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہوں (جو خمیرہ کرنے کے ری ایکشن سے آئے) یا پھر ہوا کے (جو کہ تہیں دینے سے آئے)، ان کے اندر ہونے والے عمل میں کوئی فرق نہیں۔ اگر درجہ حرارت دگنا ہو جائے گا تو حجم بھی۔ یا اگر حجم برقرار رہے تو پریشر دگنا ہو جائے گا۔ شماریات کو اس کی پرواہ نہیں کہ گیس کونسی ہے یا پھر انفرادی مالیکیول کیا کر رہے ہیں۔
بلبلوں کے گرد پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ پک کر سخت ہو گئے اور ان کا سائز فکس ہو گیا۔ نرم اور سفید اطالوی روٹی تیار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیس کے قوانین پریشر، درجہ حرارت اور حجم کے تعلق کا بتاتے ہیں۔ گاڑی کا انجن ہو یا گرم ہوا کا غبارہ، پاپ کارن کا بھننا، چولہے پر پھولتی روٹی یا ڈبل روٹی، ان سب کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔
نہ صرف اس وقت جب چیزیں گرم ہو رہی ہوں، بلکہ اس وقت بھی جب یہ سرد ہو رہی ہوں۔ اور اس کے لئے ہم قطبِ جنوبی کی طرف چلتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply