تعلیم کو انصاف دو۔۔حسام عمر

جب آپ کسی سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں تو آپ دراصل اس سسٹم کے بہترین شاہد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے ایک سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے بعد کچھ واقعات نے مجھے بھی اس نظام تعلیم کا مشاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے خود کو اس نظام کی دو انتہاؤں پر کھڑا پایا۔ ایک جانب  مجھے ضلع بھکر کے ایک سرکاری سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر سائنس اور ریاضی کے رٹے لگانے والے طلباء کا ایک جم غفیر دکھائی دیا۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جن کا ABC سے تعارف چھٹی جماعت کے پہلے ہفتے میں ہوا تھا۔ یہی   سکول میرا مادر علمی تھا۔ لیکن اس سرکاری  سکول کا یہ طالب علم اس بات سے انجان تھا کہ اس نظام تعلیم کے متوازی ایک نظام تعلیم ایسا بھی ہے جس کے نصاب کی ڈوریں کیمبرج ، آکسفورڈ اور گابا جیسی ترقی یافتہ جماعت کے ہاتھوں میں ہیں۔ لیکن اس نظام ِ تعلیم تک پہنچ رکھنے کے لیئے اپر یا ایلیٹ سوشل کلاس کا فرد ہونا ضروری تھا ۔دوسری جانب’ میڈیکل کالج کی چار دیواری میں جب میرا سماجی دائرہ وسعت اختیار کرنے لگا تو کچھ ایسے دوست بھی بنے جو ان بین الاقوامی جامعات کے ماتحت تعلیمی اداروں کے نظام تعلیم کے لگائے ہوئے اشجار تھے ۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بہت قلیل عرصے میں اس بات کو جان چکا تھا کہ ان طلبہ کے پڑھنے، سمجھنے، یاد کرنے اور اس علم کا مثبت استعمال کرنے کا طریقہ کار میرے جیسے ان سینکڑوں طلبہ سے کئی گنا بہتر تھا جنھیں اس ملک کے سرکاری نظام نے ایسے کتابی کیڑے بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا جن کی فطرت میں صرف کتاب کو یاد کرنا سرایت کر چکا تھا۔

وقت کے مرہم نے میرے احساس کمتری کو مدھم  کر دیا تھا لیکن پھر گردونواح میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ہمارے نظام تعلیم کا پول کھول کے رکھ دیا ۔فروری 2020 ، ملتان کی ایک طبی یونیورسٹی کے با اختیار پروفیسر نے ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ایک طالب علم ‘کاشف’ کو سرجری کے فائنل پریکٹیکل امتحان میں ذاتی رنجش کی بنا پر فیل کر دیا۔ جبکہ کاشف سرجری کے تھیوری امتحان میں نمایاں نمبر حاصل کر کے پاس ہونے میں کامیاب ہوا تھا جسے ایک انجان پروفیسر نے بغیر کسی ذاتی لگاؤ یا رنجش کے چیک کیا تھا ۔ کاشف نے اپنے پروفیسر کے نام ایک خط لکھا اور بتایا کہ پروفیسر کی ناانصافی سے دلبرداشتہ خود کشی کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔کاشف نے اپنے ہاتھ کی نبض کاٹ ڈالی۔ ڈاکٹرز کاشف کی جان بچانے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن یہ واقعہ ہمارے نظام تعلیم کے سب سے اہم حصہ شعبہ امتحانات پر ڈھیروں سوال چھوڑ گیا۔ پنجاب کے ضلع بھکر کا رہائشی 16 سالہ مزمل بارہویں کے امتحان میں اچھے نمبر نا لے سکا۔ کردار سازی سے عاری اس نظام، ظالم سماج اور والدین کی سختی کا سامنا کرنے کے بجائے مزمل نے نہر میں چھلانگ لگا کر موت کا سامنا کرنا بہتر خیال کیا۔ کاغذ کے ٹکڑے پہ لکھے مزمل کے یہ آخری الفاظ اس معاشرے اور سسٹم کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں۔

میرے پیارے ابو میری ماں مجھے معاف کر دینا۔میرا رزلٹ بہت گندہ آیا ہے اور جس کی وجہ سے اب میری معاشرے میں کوئی عزت نہیں رہے گی مگر میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کر دینا۔اللہ حافظ!

اس طرح کے کئی واقعات پاکستان کے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں پیش آتے رہتے ہیں۔ نمبروں کی دوڑ کے اس ناقص سسٹم میں حصہ لینے والے طلبہ کبھی ذاتی رنجش کی بناء پر کسی مغرور بااختیار پروفیسر کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تو کبھی اس دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو اس ظالم سماج کے طعنے اس قدر نفسیاتی مفلوج بنا دیتے ہیں کہ اپنے وجود کا خاتمہ انہیں اپنا آخری حل نظر آتا ہے ۔ جریدہ ریسرچ گیٹ کی تحقیق کے مطابق سال 2010 سے سال 2019 کے درمیان پاکستان کے 11 مشہور اخبارات میں 107 خودکشی کے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہمارے فرسودہ نظام تعلیم سے ہے۔ روزنامہ دی نیشن کے آرٹیکل کے مطابق والدین، معاشرہ اور اساتذہ کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے طلباء میں خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نظام تعلیم کو طلباء کے لئے دوستانہ بنانے اور کردار سازی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ مسائل نہ صرف غیر سنجیدگی سے لے جاتے ہیں بلکہ کسی قسم کی تحقیق اور عملی اقدامات ایک ادھورا خواب ہی نظر آتا ہے۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ آخر مسئلہ کہاں درپیش ہے؟ مندرجہ بالا تحریر کی روشنی میں میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایک تکون کی مانند ہے جس کے تین کونوں پر والدین، معاشرہ اور سسٹم موجود ہیں جبکہ اس تکون کا نقطہ ارتکاز اس نظام تعلیم کا طالب علم ہے۔یہ نظام تعلیم طلبہ کو امتحانات میں اچھے نمبر لینے کے قابل تو بناتا ہے ہے لیکن کردار سازی اور جدت پسندی جیسے عناصر سے عاری یہ سسٹم کبھی تخلیقی سوچ کی بنیاد نہیں بنتا۔ ہمارے معاشرے میں قابلیت کا معیار زیادہ نمبر لینا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو یا تو ڈاکٹرز کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں یا انجینئرز کی صورت میں۔ کیریئر کے انتخاب میں والدین کی مرضی کو طالب علم کی مرضی سے زیادہ مقدم جانا جاتاہے ۔یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسی فضا کو جنم دیتے ہیں ہیں جس میں پرورش پانے والے طلباء نفسیاتی کمزوری کا شکار بن جاتے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام سے متعلق میری تشویش کو میں نے ایک سوالنامہ کی شکل دی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس سروے میں 2290 لوگوں نے حصہ لیا جو پاکستان کی مختلف جامعات اور کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔ اس سروے کی روشنی میں اسی فیصد سے زائد لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ہمارا تعلیمی نظام صرف رٹو طوطے پیدا کرتا ہے جس کا نصاب انتہائی فرسودہ ہے۔یہ نظام تخلیقی سوچ کی تعمیر میں بری طرح ناکام ہوچکاہے۔ ہمارا نظام امتحان کسی طرح سے غیر جانبدار نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ اور والدین طلباء میں زیادہ نمبر لینے کےدباؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

ان مسائل کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام تعلیم کا متبادل تلاش کیا جائے یا پھر اس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں ۔ سماجی فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ عوام اور خواص دونوں کے بچے دور حاضر میں تعلیمی جدت سے خود کو آراستہ کر سکیں۔نت نئی  تحقیقات کو سالانہ بنیادوں پر نصاب کا حصہ بنایا جائے۔اس ضمن میں فن لینڈ کے نظام تعلیم کا بغور مشاہدہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ پروگرام فار انٹرنیشنل سٹوڈنٹ اسیسمنٹ کی دوڑ میں کئی سالوں تک نمبر1 کی رینکنگ برقرار رکھنے والے یہ ملک ایک منفرد اور کامیاب نظام تعلیم کی پیروی کرتا ہے۔فن لینڈ میں سات سال سے کم عمر کے بچے کا سکول میں داخلہ سختی سے منع ہے؛ ماں کو بچے کی پہلی درسگاہ سمجھنے کے اصول پر زور دیا جاتا ہے۔سکول میں ناصرف بچوں کو دوپہر کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے بلکہ متوازن غذا کی اہمیت پر باقاعدہ کلاسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے پرائمری سکول میں پڑھنے اور پڑھانے کا طریقہ کار انتہائی غیر رسمی ہے۔یونیفارم اور ہوم ورک کی پابندی کے بغیر طلبہ کو دوستانہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے اہم بات پروبلم بیس لرننگ ہے جسے پی بی ایل کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اس طریقہ کار میں کسی ایک عنوان کو لے کر اس سے منسلک سائنس ،ریاضی اور دیگر ممکنہ مضامین کو پڑھایا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو رٹا لگوانے کے بجائے سمجھانے کے اصول پر زور دیا جاتا ہے۔فن لینڈ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے 1:1 کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔بچوں کو نفسیاتی دباؤ سے دور رکھنے کے لیے پرائمری تعلیم میں کسی قسم کا امتحان نہیں لیا جاتا۔اساتذہ کی سلیکشن کا طریقہ کار انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے۔ اساتذہ کو ہر قسم کی کسوٹی پر پورا اترنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا نظام تعلیم بھی ان مثبت تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔نطام تعلیم کے سب سے اہم شعبہ’ شعبہ امتحانات ‘ کی بہتری کے لیے غیر جانبدار اور منصفانہ پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے۔عام فہم کی بات ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ایک جماعت کو پڑھانے والا اُستاد اس جماعت سے ایک منفرد واقفیت رکھتا ہے۔اگر نظام امتحانات استاد کے ہاتھ میں دیا جائے تو ذاتی رنجش یا ذاتی لگاؤ کا عنصر طلبہ کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔اس ضمن میں ایک غیر جانبدار اور ڈبل بلائنڈڈ نظام امتحان کی ضرورت ہے۔والدین کی تربیت نظام تعلیم کا بنیادی جزو ہے۔ سکول میں والدین کی تربیت کے لیے سالانہ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ والدین اپنے بچوں کی کیریئر سے متعلق خواہشات کا احترام کریں۔ انہیں مختلف شعبہ جات کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اچھی تعلیم اور کردار سازی اس نوجوان نسل کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت پاکستان کو نوجوان طبقہ کی ضروریات اور حقوق کے لیے موثر قانون سازی کرنا ہوگی۔امید واثق ہے کہ بجٹ 2020-21 کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے مختص کیا جائےگا۔
حوالہ جات:
https://www.researchgate.net/publication/334626725_A_Qualitative_Analysis_of_Suicides_Committed_by_the_Students_in_Pakistan
https://www.google.com/amp/s/nation.com.pk/19-Aug-2018/student-suicides-in-pakistan-wake-up-call-for-parents-and-educational-administrators%3fversion=amp
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2954655957913596&id=181194501926436

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply