غلط کون؟۔۔عبدالرؤف

جب بیٹا بگڑنے لگے اور وہ غلط سمت  میں جانے لگے تو والدین اسے راہ راست پر لانے کے لیے اپنی سی کوشش کرتے ہیں، اس میں کئی طریقے ہیں، ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے، مار کٹائی بھی ہے، ہلکی پھلکی سرزنش بھی ہے، ان تینوں سزاؤں کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی ہے، لیکن بگڑنے میں اور اسے اتنی چھوٹ دینے میں کون شامل ہے؟ والدین کی بے جا آزادی یا پھر ان کو خاص توجہ نہ دینا؟ یا پھر والدین کی زیادہ سختیوں نے اسے بغاوت پر آمادہ کیا اور اس نے باہر کے کچھ آوارہ لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا، اور آہستہ آہستہ وہ غلط راہ کا مسافر بن گیا۔

جب والدین کو احساس ہونے لگتا ہے کہ ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے تو اس وقت تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے، لیکن والدین پھر بھی اپنی اولاد کو ہی کوسنے دیتے ہیں اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جڑے وہ لوازمات یا پھر وہ لوگ جنھوں نے اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، والدین ان لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے بلکہ اپنی کمپنی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ حکومت اور سوشل میڈیا کے درمیان بھی ہے، حکومت کا یہ کہنا کہ ہم سوشل میڈیا کو کنٹرول میں لائیں گے اور اس پر ہم اپنی گرفت رکھیں گے، اور جتنے بھی پرائیویٹ ادارے ہیں بشمول الیکٹرانک میڈیا کے ان سب کو اس بات کا پابند کریں گے کہ وہ ایسا مواد، تقریر یا گفتگو جس سے کسی ادارے یا ملک یا کسی مسلک کی دلآزاری ہوتی ہو، ایسی کسی بھی بات کو حکومت کی اجازت کے بغیر ادارہ نشر نہیں کرسکے گا، اور جو بھی ان معاملات کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا اس چینل یا ادرے کو بند کردیا جائے گا۔

اب اصل ایشو یہ ہے کہ حکومت سچ بات کیوں نہیں کہتی کہ ہم خود پر تنقید برداشت نہیں کریں گے، ان کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی ان کے لیے خود اِک سوالیہ نشان ہے۔
اب جب ان پر ہر طرف سے تنقید ہونے لگی تو انھیں اپنے حساس ادارے، مسلکی دلآزاری، عدم برداشت، اور دوسرے معاملات نظر آنا شروع ہوگئے، جب آپ اپوزیشن میں تھے تو اس وقت یہ راگ کیوں نہیں الاپتے تھے، اداروں پر، فوج پر، مسالک پر، اور دوسرے نوعیت کے جو بھی معاملات ہیں، یہ سازشیں آج سے تو نہیں ہیں، نہ ہی آپ کی حکومت کے بعد شروع ہوئی ہیں، یہ اقدام تو آپ کو اس وقت بھی اٹھانا چاہیے تھا جب آپ اپوزیشن میں تھے بلکہ اس وقت تو آپ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے سے اپنی کمپین چلا رہے تھے، اور جن اداروں کی دلآزاری کی آپ بات کرتے ہیں، یہ دلآزاریاں آپ بھی بہت کر چکے ہیں، اس وقت آپ کو خیال کیوں نہیں آیا۔

بات یہ ہے کہ ہم وجوہات تلاش نہیں کرتے اور لٹھ لے کر لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ اپنا قبلہ درست کریں، سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں کہ ایسی وہ کون سی محرومیاں ہیں کہ اک بہت بڑا طبقہ اداروں کے، فوج کے، ایجنسیوں، ملک کے سیاستدانوں کے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتا ہے، اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، جس میں ملک کی بدنامی نہ ہو۔

ایسا کیا ہوا کہ پوری قوم ہر وقت حساس اداروں اور فوج پر تنقید کرتی ہے، اور انھیں تنقید کا نشانہ بناتی ہے، کوئی وجہ تو ہے کہ فوج اور قوم اک دوسرے کے آمنے سامنے ہے، رہی بات نوجوانوں کی کہ وہ غلط سمت جارہے ہیں، تو وہ آپ لوگوں کی ناکامیاں ہے، آپ نے قوم کو ستر سال سے اندھیروں میں رکھا، ان کی محرومیوں کو بجائے مرہم رکھنے کے اور مزید گہرا کردیا۔

جس قوم کی تربیت بحیثیت ماں باپ   آپ نے کرنی تھی، آپ نے ان کی آبیاری تو کی لیکن سوتیلوں جیسی، جہاں سے بجائے محبتوں کے پھول کھلنے کے نفرتوں کے بیج پھوٹنے لگے، اور جب انھیں اپنی صفائیوں کے لیے کوئی موقع بھی فراہم نہ کیا گیا تو انھیں پھر یہ موقع ان پرائیویٹ اداروں میں ملا جہاں انھیں خوب طبع آزمائی کا موقع ملا، اور اس قوم نے اپنی ستر سالہ محرومیوں کا حساب ان پلیٹ فارم سے چکتا کرنے کی کوشش کی۔

تمام کفتگو کا لب لباب اور نچوڑ یہ  ہے کہ پہلے اپنا قبلہ درست کریں، جن اداروں نے جہاں جہاں زیادتیاں کی ہیں ان کو بجائے خود سے دور کرنے کے انھیں اپنے قریب لائیں، انھیں دشمن کا آلہ کار نہیں بلکہ اپنی طرح محب وطن ہی سمجھیں، حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ہم کون ہیں کسی کو دینے والے، اس کے لیے ادارے موجود ہیں، یہ ان کا کام ہے کہ کون غدار ہے اور کون محب وطن۔
لہذا مہربانی کر کے قوم کے ان معماروں کو جن کا آپ کو بڑا   مان ہے کہ ہم انھیں غلط ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلے ہم ان نوجوانوں کو راہ راست پر لائیں جو ہم سے ہماری سازشوں کی وجہ سے دور ہوگئے، جنھیں ہم نے کبھی اپنا نہیں سمجھا، جن کے بڑوں پر ہم نے غداری کا لیبل لگایا اور ان پر غداری کے مقدمے بنائے  اور وہ مقدمے آج بھی قائم ہیں، آج بھی ہمارے کچھ ادارے یہی غلطیاں دہرارہے ہیں ان پر قوم پرستی اور غداری کے مقدمے بنائے جارہے ہیں انہیں دن دیہاڑے اٹھالیا جاتا ہے، کئی کئی ماہ غائب رکھا جاتا ہے، جب اداروں سے اس بابت پوچھا جاتا ہے تو الزام لگتا ہے کہ یہ غدار ہے دہشتگرد ہے، یہ ملک کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں ، اگر اک شخص پر غداری یا دہشتگردی کا کوئی کیس ہے یا وہ واقعی اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے سب سے پہلے عدالت میں پیش کیا جائے، اداروں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ آپ لوگوں پر مقدمے بنائیں وہ بھی غداری کے۔

اور جب کچھ لوگ اس بابت آپ سے پوچھتے ہیں تو وہ لوگ بھی آپ کو اک آنکھ نہیں بھاتے، اور پھر جب نوجوان کسی تیسرے راستے کا انتخاب کرتا ہے آپ کی پالیسیوں سے نالاں ہوکر تو پھر آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں کہ نوجوان غلط ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،سب سے پہلے آپ نے نوجوان طبقے میں یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ یہ ملک کسی خاص گروہ یا جماعت کا نہیں بلکہ یہ ملک سب کا ہے اور اس ملک میں سب محب وطن ہیں، یہاں سب قومیں، مسالک، اقلیتیں ایک برابر ہیں ، کسی کو کسی پر برتری نہیں۔

اس کے علاوہ نوجوانوں میں اس بات کا شعور بھی اجاگر کرنا پڑے گا کہ ملک اور وطن سے محبت کیا ہوتی ہے اور یہ وطن ہم نے کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا، جب ہماری تربیت یہ ہوگی بحیثیت ملک کے ہمارے نوجوانوں کے لیے، تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہم اک لڑی میں خود کو پرو کر دشمن کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں لیکن اس کے لیے ہمیں بحیثیت ملک فراخدلی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ہمیں بتانا پڑے گا کہ ہم بڑے تھے ہم نے امتیازی سلوک کیا ،ہم سے غلطیاں ہوئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ دن دور نہیں جب یہاں سے ایسی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگا جہاں نوجوان غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”غلط کون؟۔۔عبدالرؤف

  1. انتہائی گھٹیا اور مس لیڈنگ تحریر ہے ۔۔۔ قانون چیزوں کو صحیح سمت میں لیجانے کے لئے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ہاں کیونکہ اس سے کافی دانشوڑوں کی جھوٹی کہانیوں پر پکڑ ہوگی ۔۔۔ تو تکلیف تو ہوگی ۔۔۔۔ بہت تکلیف ہوگی ۔۔۔

Leave a Reply