پاکستانی علماء : تبدیلیاں اور رحجانات ۔۔۔۔ ایمل خٹک

( علماء کے سماجی کردار کے بارے میں سلسلہ وار دومضامین لکھے گئے ہیں ۔ حصہ دوم جو علماء اور جدیدت کے متعلق ہے کل شائع کیا جائے گا)

مولانا عبدالعزیز ھو یا مولوی الیاس گھمن یا بوریوالہ کے قاری محمد اسلم یا سوات کا ملا فضل اللہ یہ تمام کردار ایک سماجی مظہر ( سوشل فینومینا ) کی مختلف شکلیں ھیں. انتہائی اخلاقی پستی یا جنسی راہروی کی مثالیں ھوں یا عقیدت مندوں کا مختلف طریقوں سے استحصال ، مذھبی انتہاپسندی ھو یا تنگ نظری کے واقعات، مذھبی طبقے کے منفی سماجی کردار کے بارے میں مختلف سوالات اور مباحث کو جنم دے رہے ھیں۔ کیا یہ تنگ نظری ، مذھبی گمراہی ، اخلاقی بے راہروی اور مذھب کے نام پر استحصال کوئی نئی بات ہے یا پہلے سے بھی یہ چیزیں موجود تھیں؟ کیا اب مذھبی طبقات میں اخلاقی اور دیگر قسم کی بدعنوانیاں پہلے کی نسبت بڑھ گئی ھیں یا ان کی عوامی قدرومنزلت میں کمی واقع ھوئی ہے جس کی وجہ سے یہ واقعات طشت از بام ھو رہے ھیں ؟ کیا مذھبی طبقے یک جنس (مونولیتھکس) ھیں مثلا سارے ایک جیسے سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر کے حامل ھیں یا کثیر جنس (ھیٹروجئنیس ) مثلا مختلف سماجی طبقات سے تعلق ہے؟ کیا مدرسوں کی تعداد بڑھنے سے مذھبی تعلیم کا معیار بہتر ھوا ہے یا خراب؟ کیا موجودہ مذھبی خلفشار اور انتشار میں علماء کا رول مثبت ہے یا منفی؟ علماء کے بارے میں عوامی تصورات اور توقعات اور ان کے عمل اور کردار کے بیچ میں خلیج کیوں بڑھ رہی ہے؟

عوامی سطع پر علماء کرام کے سماجی رول کے بارے میں مختلف آراء موجود ھیں ۔ مگر تنقید کا پہلو بڑھ رہا ہے۔ ان سوالات کو اٹھانے یا ان کے جوابات تلاش کرنے کا مقصد کسی خاص طبقے کی کردار کشی یا ھرزہ رسائی نہیں بلکہ بعض متنازعہ علماء کے حوالے سے جاری بحث کو مسلکی اور فرقہ وارانہ رنگ کی بجائے ایک علمی رنگ دینا ہے ۔ اور علماء کرام کے قول اور فعل میں تضاد یا ان سے معاشرے کے توقعات اور ان کے کردار میں بڑھتی ھوئی خلیج کے اسباب اور عوامل کو سامنے لانا ہے۔

گزشتہ تین ساڑھے تین دھائیوں میں پاکستانی معاشرے میں مذھبی طبقے خصوصاً علماء کے کردار میں بنیادی تبدیلیاں رونما ھوچکی ہیں اور شروع میں ان کے سماجی اور سیاسی کردار میں جو اُبھار آیا تھا وہ گزشتہ دس پندرہ سال میں آھستہ آھستہ کم ھو رہا ہے۔ اس طبقے کی قدرومنزلت میں اضافے کے بعد اب تنزلی شروع ھوگئی ہے ۔ اس پستی کی وجہ۔ سے بعض علاقوں میں مذھبی معاملات میں روایتی علماء کی نسبت جدید تعلیمی اداروں سے فارغ مذھبی دانشوروں اور تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کے قدر و منزلت بڑھ گئی ہے۔

علماء کے کردار کے حوالے سے فوجی آمر جرنیل ضیاء الحق کا دور کئی حوالوں سے اھم ہے۔ مگر یہاں دو حوالوں کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو اقتدار کو دوام دینے کیلئے اس نے اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا جس سے ملک میں ایک عمومی کٹر مذھبی ماحول بنانے میں مدد ملی۔ اس کے علاوہ سرد جنگ کے تقاضوں اور بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اور افغان جہاد کی حمایت اور مدد کیلئے سازگار مذھبی ماحول کا قیام اور اسے برقرار رکھنا ضروری تھا۔

دوسرا اس دور میں منظم انداز میں مدارس کا جال پھیلایا گیا اور مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کرکے انہیں رسمی تعلیم کی ڈگریوں کے مساوی حیثت دی گئی۔ اس سے نہ صرف مدرسوں اور دیگر نجی اداروں بلکہ سرکاری محکموں میں بھی مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ کی ڈیمانڈ بڑھی۔

ایک طرف ملک میں مدارس کا جال پھیلنے کی وجہ سے علماء کی تعداد میں بیمثال اضافہ ھوا۔ دوسری طرف سرد جنگ میں ان کی بڑھتی ھوئی سیاسی اہمیت خاص طور پر افغان جہاد اور ایرانی انقلاب کے بعد علما طبقے میں ایک سیاسی اور سماجی اُبھار دیکھنے میں آیا۔ طالبان کے دور میں ان کو حکومت کرنے اور چلانے کا قریب سے موقع بھی ملا اور کئی پاکستانی علماء افغان طالبان کے مشیر کے طور پر کام بھی کرتے رہے۔ چونکہ پاکستانی علماء کی اکثریت دیہی یعنی رورل پس منظر رکھتی ہے اس وجہ سے ان کو افغان طالبان کی رورل آرتھوڈوکس قسم کے مذھبی خیالات سے کوئی مسلہ نہیں تھا ۔ اس شریعت ماڈل کا تجربہ کرنے میں افغان طالبان کو پاکستانی علماء کی مکمل راھنمائی حاصل رہی کیونکہ یہ پاکستانی علماء ہی تھے جنہوں نے طالبان میں اس قسم کی سخت اور کٹر مذھبی سوچ کی آبیاری کی تھی۔ طالبان پراجیکٹ میں پاکستانی علماء کرام کے سرگرم کردار کی وجہ سے بعض علماء کو اقتدار کا چسکا لگا اور ان میں اقتدار کی خواھش مزید پروان چڑھی۔

علماء کے بڑھتے ھوئے منفی سماجی کردار کے حوالے سے درج ذیل اسباب اھم ھیں۔ پہلا علماء کے قول و فعل میں تضاد نمایاں ھوتا جا رہا ہے۔ بعض علماء کی کسی جائز اور معلوم وسیلہ روزگار ، کاروبار یا جائیداد کے بغیر بنک بیلنس اور جائیداد میں اچانک اضافہ اور معیار زندگی میں نمایاں تبدیلی نے عوام میں ان کے بارے میں مختلف قسم کے شکوک و شبھات کو جنم دیا ہے۔

دوسرا، مذھب کے غلط یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال اور مذھبی منافرت ، تشدد اور عسکریت پسندی نے مذھبی طبقے کی منافقت اور تنگ نظری کو ایکسپوز کیا ہے۔ ابتدا میں تو اس سے ان کی سماجی اور سیاسی ویژن بڑھی اور معاشی خوشحالی آگئی مگر آھستہ آھستہ ان کی جاہ طلبی ، نمود و نمائش ، بدعنوانیوں اور اخلاقی گراوٹ کے قصے سامنے آنے کے بعد عوامی تنقید بھی بڑھنا شروع ھوگئی۔

تیسرا، مسلکی اور فرقہ وارانہ رقابتوں کی وجہ سے بھی اب معلومات نکل کر باھر آرہی ہیں ورنہ پہلے ایسے مواقع پر یا تو ان واقعات سے انکار کیا جاتا ہے یا اسے مخالف فرقےاور مسلک کی سازش قرار دیکر دبا دیا جاتا ہے۔ مگر اب عوامی شعور میں اضافے سے ایسی چیزیں دبانا آسان نہیں رہا۔

چوتھا، بہت سی وجوہات کی بناء پر علماء کی عوامی قدرومنزلت میں کمی آرہی ہے اور اب لوگوں نے ایسے مواقع پر انھیں چیلنج کرنا شروع کیا ہے۔

پانچواں، میڈیا کی ترقی سے بھی اب کوئی بات چھپی نہیں رہی بلکہ فورا پبلک ھو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے علماء سوء کا کردار اور منفی باتیں سامنے آرہی ہے ۔

چھٹا، مذھبی تعلیم مقداری لحاظ سے بڑی ہے مگر کیفیتی لحاظ سے اس کا معیار گرا ہے۔ مدرسوں کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ اور اساتذہ کی انتہائی کم تنخواہیں اور دیگر مراعات کی کمی کی وجہ سے مذھبی تعلیم کا نظام پسماندگی کا شکار ہے۔ چند گنے چنے شہری مدرسوں کو چھوڑ کر زیادہ تر مدرسوں میں تعلم کا برا حال ہے۔ اور نیم ملاؤں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ھونے سے ایمان کیلئے خطرات بھی بڑھ گئے ھیں ۔ اس سلسلے میں کئی ٹھوس مثالیں دی جاسکتی ہے مگر بوجوہ اس کو سامنے لانے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔

معاشرے میں علماء کے مثبت اور تعمیری کردار کو مزید سنوارنے اور اجاگر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بیرونی اور اندرونی فنڈنگ کو منظم اور کسی قاعدے اور قانون کے تحت کیا جائے۔ مدرسوں کی مجوزہ رجسٹریشن اور ریگولیشن کے نظام پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ مدارس خاص طور پر درمیانے اور بڑے مدرسوں کے انتظامی اور مالیاتی امور کو زیادہ شفاف اور بہتر بنانے کیلئے ریگولر اور بہتر آڈٹ سسٹم بنایا جائے ۔ اس طرح مسجد کمیٹیوں خصوصاً بڑی شہری اور جامع مساجد کے رول کو بھی دیکھنے اور اس کو ایک نظم کے تحت لانے کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مساجد اور مدرسوں کے سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر غیر قانونی قیام کا سلسلہ بند ھونا چائیے ۔ لاوڈ اسپیکر کی غلط اور غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چائیے۔ خطبہ کیلئے ایک ضابطہ اخلاق اور ماڈل خطبات بنانے کی ضرورت ہے۔ مدارس کے سلیبس اور امتحانی نظام کو بھی جدید اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان تمام تجاویز پر عمل کیلئے حکومت کو علماء اور دیگر متعلقہ افراد اور تنظیموں سے وسیع مشاورت کرنا چاہئے اور علماء کرام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں وہ حکومت کا ساتھ دیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply