• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولانا فضل الرحمن کا میڈیا کا سامنا کرنے کا منفرد انداز۔۔انعام الحق

مولانا فضل الرحمن کا میڈیا کا سامنا کرنے کا منفرد انداز۔۔انعام الحق

میڈیا ڈائس پر آتے ہی مولانا نے پہلا چٹکلا چھوڑا کہ قہوہ پیا ،حلوہ کھایا ،چوہدری شجاعت صاحب کی عیادت کی اور بس یہ کہہ کر مولانا نے ماحول کو خوشگوار بھی بنا دیا اور میڈیا نمائندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی لیکن ساتھ میڈیا نمائندوں کے تجسس کو مزید بڑھا دیا کہ آخر  ایسا کچھ خاص تو ہے جسے مولانا چھپا رہے ہیں۔ صحافیوں نے سوالات کے ذریعہ  اُگلوانے کی کوشش کی کیونکہ بطور پروفیشنل صحافت اپنائے میڈیا نمائندے تو خبر کی تلاش میں ہوتے ہیں کھانے سے گپ شپ سے ان کو رام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میڈیا نمائندوں کی بیک پر انکے میڈیا گروپ بس ایک ہی ڈیمانڈ رکھ کر آفسز سے انکو بیٹس پر بھیجتے ہیں کہ سکرین پر ہاتھوں ہاتھ بکنے والا خبر نما چورن تلاش کرکے لاؤ۔

اسی چورن کی تلاش میں وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں مچھروں کو برداشت کرتے ہیں گرمی سردی جھیلتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کو سیاسی حلقے ہوں یا ریاستی ادارے ،یا پھر صحافتی حلقے انہیں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ سلیم صافی اور حامد میر جیسے سنیئر ترین جرنلسٹ بار ہا یہ برملا کہتے سنیں گئے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان سے خبر ملے یانہ ملے سیکھنے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔

اس دور کے سیاسی مقتدا کے لئے میڈیا کا اچھے اور سلجھے ہوئے انداز میں سامنا کرنے کا گر بنیادی کردار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسکو یہ نہیں آتا وہ ملکی سیاست میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکتا عموماً سیاسی قائدین کے لئے وہ مرحلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے جب وہ میڈیا کو کچھ بھی نہ کہنا چاہتے ہوں اور نوکمنٹس پر گزارہ کرنا چاہتے ہوں لیکن میڈیا کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتا ہو تو ایسے وقت میں یا تو سیاسی قائدین کو ناخوشگوار رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا میڈیا کو سخت رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جسکا دونوں اپنے اپنے وقت پر حساب چکتا کرتے ہیں مولنا فضل الرحمان نوکمنٹس کا سہارا بہت کم بلکہ شادر نادر ہی لیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا شمار ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو سیاسی طور پر مشکل ترین اور حساس ترین موضوع پر بھی بڑے فصیحانہ اور بلیغانہ انداز میں سب کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اور پتلی گلی سے نکل بھی جاتے ہیں
بعض حساس ترین موضوعات پر مولانا نمکین جملوں اور مزاحیہ کہاوتوں سے اس مسئلہ کی حساسیت کو بھی کم کردیتے ہیں اور اپنا بھرپور موقف بھی دے دیتے ہیں جیسے 2018 کے الیکشن کے نتائج پر مولانا کو ریاستی اداروں سے سخت گلہ تھا جس کو مولانا نے نکے دا ابا کے مشہور لطیفہ سے تعبیر کرکے ایک نیالطیفہ بنا ڈالا جو ہر زبان زدعام رہا۔

اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر بھی مولانا نے ایسا ہی کیا میڈیا کو بھی ہینڈل کرگئے اور بتایا بھی کچھ نہیں ،اسی تجسس پر مولنا خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل کریں گے
لیکن اس موقع  پر مولانا فضل الرحمان نے حالیہ صحابہ کرام کی گستاخیوں پر ریاستی کردار پر سوال اٹھایا اور انکی خاموشی کو انکے مشکوک کردار کی دلیل قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کسی گستاخانہ عمل کے ردعمل میں اگر کوئی شہری انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اس ردعمل پر تو سخت قانونی ایکشن ہوتا ہے لیکن جس عمل کیوجہ سے ردعمل ہوا اس عمل پر قانون نافذ کرنے ادارے وہ پھرتی نہیں دکھاتے۔

آج میڈیا نمائندوں نے مولانا سے تین اہم سوالات کئے لیکن مولانا نے تینوں سوالات کے جوابات کو گول کردیاسوال کردیا۔
پہلا سوال یہ تھا کہ چوہدری برادران سے ماضی قریب میں آزادی مارچ کے بعد ہونے والے شکوے شکایات پر چوہدری صاحب سے کیا بات ہوئی
مولانا نے چوہدری صاحب کی بیماری کیوجہ سے اس طرح کے سیاسی ایشوز پر بات نہ کرنے کا گول مول جواب دیا
دوسرا سوال یہ تھا کہ اپوزیشن کو اختیار کرنے کے لئے وہ ٹھوس پالیسی کیا ہے جو آپ کو قابل قبول ہو
مولانا نے اسکا یہ جواب دیا کہ انتظار کریں اے پی سی ہونے دیں وہ پالیسی میں اے پی سی میں بتاؤں گا۔

تیسرا سوال یہ تھا کہ حالیہ موٹروے پر ایک خاتون سے زیادتی ہونے کے دلخراش واقعہ کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق 93فیصد لوگ ایسے واقعات پر سرعام پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ سرعام پھانسی پر قانون سازی کے حوالہ سے کیا کہیں گے۔
مولانا نے کہا کہ حکومت ایگزیکٹو پاور سے سرعام پھانسی دے سکتی ہے نواز شریف دور میں دی بھی گئی ہے حکومت ایسا کرے یہ کہہ کرمولانا نے جان چھڑا دی اور سرعام پھانسی کے لئے کسی قانون سازی کی حمایت کی حامی نہیں بھری کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ہوائی تخت مغربی ہواؤں پر پرواز کرتا ہے اور مغرب سرعام پھانسی کے حق میں نہیں تو مولانا اپنی سیاسی زندگی کو اقتدار سے مزید دور کرنے کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتے اس لئے ریاستی ایگزیکٹو پاور کی بتی کے پیچھے لگا کر صحافتی نمائندہ کو خاموش کردیا۔

مولانا جب صحافیوں کے سوالات کا مزید جواب نہ دینا چاہیں تو بڑے خوبصورت انداز میں سوال وجواب کے سیشن کو لپیٹ لیتے ہیں ایسا ہی مولنا نے چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر کیا کہ صحافی نے پوچھا کے پی ٹی آئی پولیس ریفارمز کی دعوی دار تھی حالانکہ پنجاب میں بیڈ گورننس کی حد کر ہوگئی کہ پولیس کا ماتحت افسر افسران بالا کا حکم نہیں مانتا اشارہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے قضیہ کیطرف تھا تو مولنا نے پنجابی لہجے میں کہا پی ٹی آئی ریفارمز کو رہنے دے بس بندہ دے پتر بن جاؤ
یہ جملہ گلابی پنجابی میں ایسے دلچسپ انداز میں کہا کہ صحافی قہقہے مارنے میں مصروف ہوگئے اور ان کو اپنے سوال ہی بھول گے مولانا یہ گئے اور وہ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال مولانا میڈیا کو ڈیل کرنے کا بھرپور فن جانتے ہیں جسمیں کوئی دورائے نہیں ہیں اللہ تعالی مولنا کے اس فن کو دین اسلام کی اشاعت کے لئے قبول کرے اور اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply