پاکستانی ڈرامہ کلچر۔۔حذیفہ سنان

کسی ملک کی تہذیب و ثقافت ،روایات اور اقدار جاننے کے لیے اس ملک کے دانش وروں کے ناول اور افسانوں سے مدد لی جاتی ہے یا وہاں کی ڈاکیومنٹریز اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔کیونکہ عموما ً یہ سب اس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔اور مزید براں یہی ناول ڈرامے اور افسانے نوجوان نسل کی ذہن سازی کرتے ہیں ۔مگر آخر پاکستان میں نشر ہونے والے ڈرامے تہذیب روایات اور اخلاقیات کا جنازہ کیوں نکال رہے ہیں؟

یہ سوال  اُس وقت زور پکڑ گیا جب ترکی ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی پاکستان میں اپنی مقبولیت  کی انتہا کو پہنچا ۔آخر اس طرح کے شاہکار پاکستان میں نایاب کیوں؟یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہے مگر یہ معاشرہ ابھی اتنا بھی نہیں گرا کہ مقدس رشتوں کا تقدس پامال کر کے دکھایاجائے ۔کبھی یہی ڈرامے فیملی کے ساتھ دیکھے جا سکتے تھے مگر بدقسمتی سے اب ان میں سے اکثر فیملی ڈرامے نہیں رہے ۔ان میں دکھائی جانے والی کہانی پہنا جانے والا لباس اور باقی طور طریقے کسی بھی طرح اس معاشرے سے نہیں ملتے ۔

ڈراموں کی کہانیاں عموماً  ساس بہو کی لڑائیوں سے شروع ہوتی ہیں اور دیو ر بھابھی،بہنوئی سالی اور سسر بہو کے نا جائز تعلقات سے ہوتے ہوئے مرکزی کردار یعنی ہیرو کی اچانک طبی موت یا خودکشی پر آکر بغیر کوئی اخلاقی درس دیئے اختتام کو پہنچ جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تا ہم اس سلسلے میں رائٹرز کا یہ موقف اپنی جگہ درست ہے کہ وہ یہ سب لکھنے پر مجبور ہیں اگر وہ اس طرح کے سکرپٹ نہ لکھیں تو کوئی ادارہ کوئی برینڈ اور کوئی چینل انہیں سپانسر کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور ان کے لکھے گئے سکرپٹس کا مقدر ردی کی ٹوکری کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔یاد رہے کہ پاکستان میں مقبول ہونے والے ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی پر خود ترک حکومت نے پیسہ لگایا اور اسے سپانسر کیا ۔مگر اس سب سے تشویش ناک بات ان ڈراموں کی مقبولیت بھی ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ اس طرح کے بےہودہ ڈرامے نشر ہو رہے ہیں بلکہ بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس طرح کے ڈرامے دیکھے جا رہے ہیں اور پسند بھی کیے جا رہے ہیں ۔تبھی تو چینلز ایسے ہی ڈرامے نشر کرتے ہیں جن سے ان کی ریٹنگ میں اضافہ ہو مگر اس سب پر پیمرا بدستور خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

Facebook Comments