• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یوں تو سبھی آئینہ دیکھتے ہیں مگر سماج کو آئینہ دکھا گیا منٹو۔۔نیہا حسن

یوں تو سبھی آئینہ دیکھتے ہیں مگر سماج کو آئینہ دکھا گیا منٹو۔۔نیہا حسن

اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 65  برس کا عرصہ بیت گیا،اپنے افسانوں میں بلا کی جدت اور بے باکی سے معاشرے میں رونما ہونے والے تلخ حقائق کو آئینہ دکھانے والے سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912ء کو بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

خوبرو نوجوان منٹو سنہرے فریم کا چشمہ لگائے اپنے دور کے ادیبوں میں نہ صرف نمایاں نظر آتے بلکہ سب سے منفرد نظریہ بھی رکھتے تھے انہوں نے تازیانے کھانے پر بھی جب قلم اٹھایا معاشرے میں پیدا ہونے والے کینسر کو چیرتے   ہوئے اسکا عکس ہی دکھایا ۔۔یہی وجہ ہے کہ یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع   شخصیت کا اعزاز اپنے نام کرچکا تھا ۔لوگ منٹو کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا کرتے ہیں اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک   سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ کبیرہ تصوّر کیے جاتے تھے ۔منٹو جن موضوعات پر کھلم کھلا   رقم طراز ہوتا رہا ہے، ان کی وجہ سے کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

چند مشہور افسانے جن میں : ٹھنڈا گوشت، سیاہ حاشیے، ٹوبہ ٹیک سنگھ، لاؤڈ اسپیکر، گنجے فرشتے، کالی شلوار، بو، دھواں، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، بےپناہ مشہور ہیں۔

سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں، اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کیونکہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔

منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

معاشرے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں  سارے اعزاز و ایوارڈ بعد از مرگ ہی  متعلقہ شخصیات کودیے  جاتے ہیں ،منٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، جس منٹو کو زندگی بار بار کٹہرے میں لاکھڑا کیا کرتی، بعد از مرگ 14 اگست 2012 کو اسی منٹو کو نشانِ امتیاز سے نوازا گیا ۔جبکہ عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع ایک بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کے آخری دن انتہائی  دردناک اور افسوس ناک حالت میں گزارے۔

بےانتہا شراب نوشی کی وجہ سے ان کا جگر  شدید  متاثر ہوچکا تھا ۔آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ دردناک خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی اور جدت پسند افسانے اور کہانیاں اور سب سے بڑھ کر نوجوان نسل کو ایک نئے نظرئیے سے نوازنے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں تو منٹو کے سارے اقوال لازوال ہیں مگر میرے پسندیدہ اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ “قوت ارادی ایک ایسی چیز ہے جو ہر ناممکن چیز کو ممکن بنادیتی ہے”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply