منٹو کا درد۔۔زرک میر

منٹو جی نے بوتل سنبھالی اور ٹانگے میں بیٹھ گئے

Advertisements
julia rana solicitors

دارو کی یہ بوتل ”کھول دو” افسانہ لکھنے کےبعد ہاتھ آ گئی تھی
منٹو گھر پہنچ کرکسی سے بات چیت کئے بغیر سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے اور بوتل کاغذ کے تھیلے سے نکال کر میز پر رکھ دی اور خود کرسی پر بیٹھ گئے۔وہ بس پینے ہی والے تھے کہ پیچھے سے اہلیہ صفیہ تیز تیز قدموں کیساتھ آگئیں
کیا کررہے ہو؟کپڑے تو بدلو کھانا کھاؤ ،بچوں سے ملو ۔ یہ کیا طریقہ ہے، بچیاں کیا سمجھیں گی؟
منٹو کو صفیہ کا یوں مخل ہونا بڑا عجیب لگا اور کڑوا منہ بنا کر بوتل زمین پر پٹختے پٹختے میز پر رکھ دی اور کھڑے ہوکر زور سے بولے
تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں یہ عیاشی کیلئے پیتا ہوں۔تمہیں میری تکلیف کا اندازہ نہیں۔ کسی کوشدید درد ہو تکلیف ہو وہ پہلے دوائی لے گا یا پھر رکھ رکھاؤ کریگا ٗ علیک سلیک کریگا۔دوائی پینے کیلئے کسی مخصوص وقت کا انتظار کریگا۔ یہ کہہ کرمنٹو کی آنکھیں سرخ ہوگئیں جو اس کے دھندلی  عینک سے مزید خوفناک منظر پیش کرنے لگیں۔
تمہیں ایسی کونسی بیماری ہے اور پھر یہ دوا ہے کوئی؟۔صفیہ نے بھی برابر ٹوکنے کے انداز میں جواب دیا۔
تم جاننا چاہتی ہوکہ مجھے کیا بیماری ہے اور اس بیماری کی دوا شراب کیوں ہے؟منٹو نے رومال جیب سے نکال کر اپنی آنکھوں پر پھیرا۔
ہاں بتاؤ؟ اب شراب پینے کیلئے یہ کوئی نئی بیماری تخلیق کی ہے تم نے۔بیماریوں کی جڑشراب بھی بھلا کوئی دوائی ہوئی کسی بیماری کی ۔ صفیہ نے بھی جاننے کی ٹھان لی تھی۔
سنو! میں نے کوئی بیماری تخلیق نہیں کی بلکہ میری تخلیق ہی میری بیماری ہے۔ منٹو نے اپنی بات پر زور دیا
ارے واہ! تخلیق کا شراب سے کیا تعلق؟صفیہ کا سوال طنزیہ تھا
تمہارا کیا خیال ہے کہ میرے افسانے یونہی بغیر درد اور تکلیف کے تخلیق ہوتے ہیں؟ اس قدر تکلیف کہ جیسے عورت کو بچہ جننے میں ہوتی ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ اس پر بھی افسانہ لکھوں کہ افسانہ نگار کا درد زیاد ہوتا ہے کہ کسی بچہ جنتی عورت کا درد ۔ افسانے کا خاکہ بنتے بنتے اس کی مکمل تخلیق تک جس بے چینی تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس پر آج تک کسی نے قلم نہیں اٹھایا نہ اس درد کیلئے کوئی دوائی بنی نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ کوئی ہسپتال ۔ منٹو اپنی بات ختم کرتے ہوئے کرسی پر براجمان ہوگئے.
تو لکھو اس پر اور اس کی کوئی دوائی ڈھونڈو اور ڈاکٹربھی لیکن غلط دوا لینا مسئلے کا حل تو نہیں۔تمہارا کیا خیال ہے کہ آئندہ تم بھی یہ کہوگے کہ دیکھو میرا افسانہ ہونے والاہے اور میں امید سے ہوں۔تمہارے دوست تم سے پوچھیں گے یہ امید کب سے ہے اور تم کہوگے کہ گزشتہ رات سے ہی تکلیف اور درد ہے۔ابھی پیدائش میں کچھ وقت ہے ٗدوست رازداری سے پوچھیں گے کیا نام رکھوگے اس کا ٗ تم درد اور بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر کہوگے دیکھتا ہوں ایک دفعہ افسانہ ہوجائے پھر نام کا سوچیں گے۔تب تمہارے دوست تم کو آرام کے لئے اکیلا چھوڑدیں گے۔ حاملہ عورت اپنے پیٹ پر باربار ہاتھ پھیرتی ہے اور تم اپنے دماغ پر ہاتھ پھیرتے ر ہوگے کہ افسانہ پیار سے باہر آجائے۔ بغیرکسی تکلیف کے ۔ صفیہ طنز کے بے شمار تیر چلا چکی تھی۔
مجھے تمہاری باتوں سے کوئی حیرانگی نہیں ہوئی معاملہ ایسا ہی ہے۔ افسانہ اور بچہ پیدا کرنے میں کوئی فرق نہیں۔دونوں کا حاملہ ہونے میں اور پیدائش میں کرب اور بے چینی بھی یکساں ہے۔ میں نے اپنے لئے دوائی ڈوھونڈ لی ہے باقی جانے ان کا کام ۔ منٹونے بوتل کھولی اور گلاس میں انڈیل لی۔
اس کا مطلب تو صاف ہوا کہ آئندہ مجھے بھی حاملہ ہونے کی صورت میں شراب ہی پی لینی چاہیے۔صفیہ نے ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھا
جی ضرور۔تمہیں تو حاملہ ہونے سے پہلے ہی پی لینی چاہیے۔آج رات افسانے  کیساتھ اور فیلگز (Feelings)بھی آرہی ہیں یہ لو تمہارا جام بھی تیار ہے۔منٹو نے اگلا گلاس صفیہ کو تھما دیا۔
صفیہ نے گلاس کو ہاتھ سے ہٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔جس سے گلاس تیز آواز کیساتھ زمین پر کرچی کرچی ہوگیااور شراب یوں زمین پر جوش کیساتھ بہنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حیرت انگیز منظر اور آواز کیساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی دیکھا تو شیتل بھی مجھے جھنجھوڑ کر جگا رہی ہے۔جس سے اس کی کلائی کی چوڑیاں بھی ٹوٹے گلاس کی مانند عجیب آواز پیدا کررہی تھیں میں نے اس کو کھینچ کر بستر میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ پیچھے ہٹتی ہوئی راز دارانہ انداز میں کہنے لگی
جلدی اٹھو۔ رات تم پی کر بوتل بھی ساتھ لائے تھے وہ تو میں نے کسی کے آنے سے پہلے ہی صبح سویرے پھینک دی۔ ۔اب جلدی کرواٹھو شاباش۔
مجھے یہ بات بخوبی سمجھ آگئی کہ منٹو صاحب مختصر عمر میں سینکڑوں افسانوں کو جنم دیتے دیتے 43سال کی عمر میں کیسے یوں چلے گئے تھے کہ  “کھول دو” جیسے افسانوں کو جنم دیتے دیتے کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply