لاجواب۔۔۔گل نوخیز اختر

الحمدللہ میں دلیل کی طاقت سے مالا مال ہوں۔ جب بھی کوئی مجھ سے کسی معاملے میں بحث کرتا ہے میں ایسی شاندار دلیل دیتا ہوں کہ وہ لاجواب ہوجاتاہے۔میرے کئی دوست میری مدلل گفتگو کے خوف سے مجھ سے بحث کرنا ہی چھوڑ گئے ہیں حالانکہ میں تو صرف دلیل دیتا ہوں لیکن چونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا لہذا منہ پھاڑے دیکھتے رہتے ہیں اور ہار جاتے ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ ایک دوست سے بحث چل پڑی کہ مسئلہ کشمیر کا کیا حل ہے۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف بات چیت سے حل ہوسکتا ہے، دنیا کو اپنا ہم خیال بنانا چاہیے اور عالمی فورمز پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔ میں نے اُس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف یہ ہے کہ کسی طرح مودی کو اغواء کرکے پاکستان لایا جائے اور اُس کی گردن پر پستول رکھ کر کہا جائے کہ چلو آرٹیکل 370 واپس لو۔‘ میرے دوست نے گھور کر میری طرف دیکھا’مودی کو اغواء کون کرے گا؟‘۔ میں نے نہایت متانت سے تبسم فرمایا اور آہستہ سے کہا’بات چیت کے بہانے اُسے بلا کر یکدم اُس کے منہ پر کپڑا ڈالا جاسکتا ہے‘۔ یہ سنتے ہی میرا دوست ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگا۔میں سمجھ گیا کہ لاجواب ہوگیا ہے۔ اس نے شرمندہ ہونے کی بجائے ایک اور سوال جڑ دیا’اس کے علاوہ کیا طریقہ ہوسکتا ہے؟‘۔میں ہنس پڑا، وہ شائد یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے پاس شائد یہی طریقہ ہے۔ میں نے اطمینان سے کہا’ہم بہبود ِآبادی‘ کا محکمہ ختم کرکے بھی انڈیا کا بیڑا غرق کر سکتے ہیں۔ وہ چونک اٹھا اور تفصیل پوچھی۔میں نے آگاہ کیا کہ اگر بہبودِ آبادی کا محکمہ ختم کردیا جائے تو لامحالہ آبادی بڑھے گی اور سیانے کہتے ہیں ’جب تھوڑی آبادی ہوتا ہے تو تھوڑا لوگ ہوتاہے، جب زیادہ آبادی ہوتاہے تو زیادہ لوگ ہوتاہے‘ یعنی لوگ زیادہ ہوں گے تو ہماری افرادی قوت انڈیا سے بھی بڑھ جائے گی اور ہم اُن پر حاوی ہوجائیں گے۔ یہ سن کر میرے دوست کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرے، یقینا وہ شرمندگی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔ پچھلے دنوں ایک اور مسئلہ زیربحث رہا کہ پاکستان میں ٹیکس نہ دینے والوں کو کیسے ٹیکس نیٹ میں لایاجاسکتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح دوستوں نے اعدادو شمار سے لبریز دلائل دینے شروع کردیے۔ظاہری بات ہے ان کی بات میں دلائل کم اور اعدادو شمار زیادہ تھے۔میں چاہتا تو فوراً ان کی یہ مشکل حل کر سکتا تھا لیکن میں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ویسے بھی مفکر اور عظیم انسان آخر میں ہی بولتے اچھے لگتے ہیں۔ ان کی بحث کو دو گھنٹے سے زیادہ گذر گئے تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے بالکل ہی لاتعلق بیٹھے ہیں۔میرا خیال ہے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بندہ بولا تو ایک منٹ میں حل بتا دے گا اور اِس کی واہ واہ ہوجائے گی۔میں نے بھی حوصلہ نہیں چھوڑا اور موبائل پر گیم کھیلنا شروع کردی۔ کچھ دیر بعد اُنہیں میری یاد آگئی۔ ایک دوست نے آواز لگائی’ہاں بھئی تم کیا کہتے ہو، ٹیکس نیٹ کیسے بڑھایا جاسکتاہے؟‘۔ میں دل ہی دل میں مسکرا اٹھا، آخر میری ضرورت پڑ ہی گئی۔ میں نے موبائل ایک طرف رکھا اور غور سے اُن سب کی طرف دیکھتے ہوئے گھمبیرلہجے میں کہا’دو دن میں ٹیکس نیٹ میں سو فیصد اضافہ ممکن ہے‘۔ سب نے پہلو بدلا’وہ کیسے؟‘۔ میں نے ٹانگ پر ٹانگ رکھی۔’آسان سا طریقہ ہے……سب کو فائلر ڈکلیئر کردیا جائے، پھر کوئی ایک بھی نان فائلر نہیں رہے گا‘۔ یہ سن کرسب دوستوں نے مشترکہ طور پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی……ظاہری بات ہے دلیل ہوتی تو دیتے!!!اسی طرح ایک اور جگہ گفتگو ہورہی تھی کہ چھوٹی مکھی اور بڑی مکھی
کے شہد میں کیا فرق ہوتاہے اور اس کی پہچان کیسے کی جائے۔ میں ان سب کے فضول دلائل تحمل سے سن رہا تھا۔ بالآخر جب سب نے اپنی اپنی رائے دے دی تو میں نے دھیرے سے لب کھولے’دوستو! مجھے افسوس ہے کہ آپ میں سے کسی کو بھی چھوٹی اور بڑی مکھی کے شہد میں پہچان کا نہیں پتا، حالانکہ طریقہ نہایت آسان ہے۔‘ سب چونک اٹھے اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے ایک ہنکارا بھرااور اُٹھ کر ایک چھوٹی سی شیشی دراز سے نکالی۔سب دوست غور سے شیشی کو دیکھنے لگے۔ میں نے شیشی ان کی طرف بڑھائی’بتاؤ کہ یہ کون سی مکھی کا شہد ہے‘۔ سب نے باری باری انگلی پر لگا کر شہد چیک کیا اور الجھے ہوئے لہجے میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کچھ نے کہا کہ یہ چھوٹی مکھی کا شہد ہے، کچھ نے فیصلہ کن لہجے میں اسے بڑی مکھی کا شہد قرار دیا۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ یہ ہے تو چھوٹی مکھی کا شہد لیکن مصنوعی طریقے سے گڑکے ذریعے حاصل کیا گیا ہے لہذا اس کا ذائقہ تھوڑا ترش ہے۔بحث طول پکڑ گئی تو سب نے مجھ سے کہا کہ تم ہی بتاؤ یہ کون سی مکھی کا شہد ہے۔ یہ واحد بات تھی جسے دلیل سے نہیں انتہائی آسان لفظوں سے ثابت کیا جاسکتا تھا لہذامیں نے ایک کش لیااور خلاء میں گھورتے ہوئے کہا’دوستو! یہ سادہ مکھی کا شہد ہے‘۔یہ سنتے ہی کمرے میں بیک وقت کئی دل ہلا دینے والی چیخیں گونجیں، چونکہ دلیل دینے کا وقت نہیں تھا اس لیے میں نے باہر چھلانگ لگا دی۔اللہ جانتا ہے یہ سوفیصد چھوٹی مکھی کا شہد تھا لیکن پتا نہیں کیوں زندگی میں پہلی بار میرے دوست میری دوسری کی بجائے پہلی بات کو سچ تسلیم کررہے تھے۔تب مجھ پر منکشف ہوا کہ جھوٹ کو پراعتماد طریقے سے پیش کیا جائے تو وہ سچ سے زیادہ طاقتور اور قابل قبول ہوجاتا ہے۔پھر آپ لاکھ سچ بولتے رہیں لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ایسے میں دلیل کی طاقت بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔جس نے جس بات کا یقین کرلیاسو کرلیا، اس کے بعد کوئی رائے بدلنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply