قصہ گو ستیہ پال آنند روبرو غالب

یہ شغل ِ انتظار ِ مہ وشاں در خلوت ِ شبہا
سر ِ ِ تار ِ نظر شد رشتہ ٔ تسبیح کوکب ہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضروری نوٹ
مرزا غالب کی شان میں ڈومنیـ کے حوالے سے گستاخی شعوری طور پر ممکن نہیں تھی، لیکن میں تو اپنی نظمیں تحت الشعور میں ڈوب کر لکھتا ہوں اور جب سطح پر ابھرتا ہوں تو زبان اور عروض کے حوالے سے نک سکھ ضرور درست کرتا ہوں، لیکن موضوع یا مضمون میں ترمیم کرنا گناہ سمجھتا ہوں کیونکہ میری دانست میں تخلیقی قوت کی کارکردگی ایک سچا اور برحق فعل ِ جاریہ ہے۔ (ستیہ پال آنند)

ستیہ پال آنند
یہ تخمینہ، تداوم رات بھر اختر شماری کا
لبوں سے باندھ کر رکھی ہوئی تسبیح گِنتی کی
بہت مشکل ہے گردش میں بندھے سات آسمانوں پر
بھٹکتے رہروں کی بُرج ِ اوّـل سے مکرر تک
ـ’کہی تھی آپ نے غالب ؔ۔”سراپا، کل حقیقت “، تو
ـکہیں کچھ رہ گیا ہےپھر بھی تھوڑا، چندی چندی سا

مرزا غالب
عزیزی، دیکھ ،سُن کر بات کرتے ہیں بزرگوں سے
سنو ،میں آج کہتا ہوں صحیح و راست یہ قصہ
ابھی اکیس کے پیٹے میں تھا میَں اس برس، لیکن
جوانی تھی کہ طغیانی تھی گویا برق و باراں کی

ستیہ پال آنند
حضور، ہم آپ کے بارے میں سب کچھ جانتے ہی ہیں
ہمیں اس ماہ وش معشوق کی بابت بتائیں کچھ
کہ جس کے دل کو ٹھکرا یا تھا اک بے درد عاشق نے
وہ کوئی اور تھا یا آپ ہی وہ شاہزادے تھے؟

مرزا غالب
الجھتے کیوں ہو، ستیہ پال، مجھ سے،سُن تو لو پہلے
یقینا ً میں ہی تھا لیکن یہ تہمت جھوٹ ہے مجھ پر!

ستیہ پال آنند
سنا تو ہم نے ایسا ہی تھا، لیکن آپ فرمائیں
وہ لیلےٰ کون تھی جس کا پرستیدہ یہ مجنوں تھا؟

مرزا غالب
ادھر میں تھا رجولیت کا اک نادر نمونہ، جو
برو مندی ، سرِ آغاز ِ رشدی کا تھا بالیدہ
اُدھر وہ ایک لیلیٰ تھی کہ شیریں تھی کہ کوئی حور جنت کی
جو پہلی بار آئی تھی کسی شادی کی محفل میں
وہ، نازک، دبلی، پتلی،مومی موتی سی الف بائی
ایانی، باکرہ، سولہہ برس کی۔دُر ِ نا سفتہ
جو پہلی بار” جھومر ناچ” کی محفل میں آئی تھی
مجھے مت پوچھ ۔۔۔ میرے سامنےتسلیم میں جھک کر
جب اس نے صرف اک ہلکی اچٹتی سی نظر ڈالی
مگر جو کچھ کہا ، وہ نقش ہے دل پر مرے اب تک
” اجازت دیں تو جھومر ناچ کے اس پہلے توڑے کی”
تو میں نے نیم بے ہوشی میں جیسےکھو دیا خود کو
اُن آنکھوں کی طلسماتی فضاؤں کے جزیروں میں

ستیہ پال آنند
سمجھ سکتا ہوں مَیں ، کیا آپ کی حالت ہوئی ہو گی
مگر آگے کہیں، کیا کچھ ہوا اُس واقعہ کے بعد

مر زا غالب
مگر، افسوس،صد افسوس، یہ آدھا کھلا غنچہ
جسے اک پھول بننا تھا مگر وہ بن نہیں پایا
کہ جونہی شائبہ شک کا ہوا اس کے وڈیروں کو
تو رسم و نہج سُنت، پیروی اپنے قبیلے کی
اسے بیوی بناکر لے گئی اک ڈوم ساتھی کا
تم اس کے بعد کا احوال مت پوچھو، تو اچھا ہے
کہ اس نے سنکھیا پھانکا اسی شب صبح سے پہلے
وہ دلہن تو بنی لیکن قضا کےسنگ دولہا کی

Advertisements
julia rana solicitors

قصہ گو ستیہ پال آنند
بس اتنا ہی کہا مرزا نے اور پھر اٹھ گئے جھٹ سے
مری آنکھوں سے آنسو تو چھلک آئے تھے لیکن جب
انہیں جاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی آبدیدہ تھے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply